کیا زہر بھی ’حلال‘ ہے؟

کھانا کھاتے ہوئے فقط یہ جان لینا کافی نہیں کہ یہ خوراک حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کہیں وہ زہر تو نہیں؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

کافی برس ہوئے جرمن دارالحکومت برلن میں مجھے ایک ہفتے ایک صحافتی ٹریننگ کے لیے قیام کرنا تھا۔ اس تربیتی ورک شاپ میں میرے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دوست بھی تھے۔ صبح سے لے کر شام پانچ بجے تک کی تھکا دینے والی دوڑ دھوپ کے بعد کھانے کے لیے طے یہ پایا کہ ہم سب کو کسی ریستوران کا رخ کرنا چاہیے۔ میں نے کسی ہندوستانی یا پاکستانی ریستوران سے استفادے کا مشورہ دیا، جو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک ریستوران پہنچے، تو باہر ایک مشہور ہندوستانی اداکارہ کے نام کا بورڈ لگا تھا، جو اس ریستوران کا نام بھی تھا۔ ریستوران نہایت سلیقے سے بنایا گیا تھا اور آرائش اس انداز سے کی گئی تھی کہ ہندوستان یا پاکستان ہی کی کسی بیٹھک کا گمان ہو۔ مختلف ہندوستانی اداکاراؤں اور اداکاروں کی تصاویر تھیں، مگر ایک کونے میں سلطان راہی کی ایک قد آور تصویر اور نکڑ پر حلال کا لاحقہ دیکھ کر میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔ مالک کی کچن میں کارکنوں کو گر سکھانے والی چنگھاڑتی اردو میں پنجابی گھلی ہوئی آواز سنائی دی، تو بات اور بھی واضح ہو گئی۔ یہ ریستوران ایک پاکستانی کا تھا اور وہاں کام کرنے والے بھی سبھی اس کے اپنے پیٹی بھائی تھے۔

میرے ساتھ چونکہ عمومی ٹیبل کے مقابلے میں زیادہ افراد تھے، اس لیے مجھے ریستوران کے مالک کو یہ بتانا تھا کہ وہ ہمارے لیے دو تین میزیں جوڑ دے، ورنہ ہم اس ریستوران میں لگے آئینوں سے پھوٹنے اور پھر دوسرے آئینوں سے سر پھوڑتے عکس کی طرح سارے ریستوران میں پھیل جائیں گے۔ مالک سے گفتگو ہوئی، تو پہلے اردو اور پھر پنجابی اور پھر پوٹھوہاری تک جا نکلی۔ اس ریستوران کے مالک کا تعلق میرے آبائی گاؤں ہی کی تحصیل دینہ سے تھا اور یوں دو چار منٹ کے بعد شناسائی یوں تھی کہ جیسے ہم اسکول ساتھ ہی جاتے تھے۔

خیر مدعے کی بات یہ ہے کہ اسے جرمن قوانین سے بے حد پرخاش تھی، کہنے لگا، بھائی! عجیب فضول لوگ ہیں۔ چند دن ہوئے میں یہاں فرج سے چکن نکال رہا تھا، جو بڑے بڑے ڈبوں میں بند تھا۔ ایک ڈبہ نکال کر زمین پر رکھا اور دوسرا نکالنے لگا تھا، تو فوڈ انسپکٹر نے مجھے آ دبوچا۔ سیدھا اندر آ گیا اور کہا کہ یہ چکن والا ڈبہ نیچے کیوں رکھا ہے۔ اس سے قبل کہ میں کوئی وضاحت دیتا، اس نے میرے ہاتھ میں پندرہ سو یورو جرمانے کی پرچی تھما کر اس چکن کو تلف کرنے کا حکم بھی جڑ دیا۔

میں اس پاکستانی کی آنکھوں میں اس چکن کے علاوہ پندرہ سو یورو کے غم پر ماتم اور مظلومیت سمجھ سکتا تھا۔ ایسے میں بوسنیا سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست نعیم زیچیری نے کندھے پر ہاتھ رکھا، کہنے لگا، یہاں کھانا حلال ہوتا ہے؟ میں نے کوئی جواب دینے کی بجائے، دیوار کے ایک طرف ہماری جانب دیکھتی ’حلال‘ کی تختی کی جانب اشارہ کر دیا اور وہ مسکراہٹ کے ساتھ واپس گروپ سے جا ملا۔

کچھ روز قبل ٹی وی کے کسی ’چھاپہ مار پروگرام‘ کا کوئی کلپ نگاہ سے گزرا، جس میں ایک قصاب گدھے کی کھال اتار رہا تھا اور صحافی دیوار سے کود کر ایک کیمرے سمیت اس تک پہنچ کر پوچھنے لگا کہ یہ تم گدھا کیوں کاٹ رہے تھے، تو قصائی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا، گدھا ’حرام‘ تو نہیں ہے۔

صحت مند معاشروں میں جرم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور گناہ کو انسان اور خدا کے بیچ کا معاملہ قرار دے کر انسان کے سپرد رکھا جاتا ہے۔ ریاست اور قانون معاشرے میں جرم کو روکنے کے لیے سدباب کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں روایت کچھ یوں بن گئی ہے کہ جرم ہوتا ہے، تو ہوتا رہے، مگر ہمیں ’گناہ‘ روکنا ہے۔

ان بچوں کے والدین کو پورا یقین اور تسلی ہو گی کہ انہیں اور ان کے بچوں کو کھلایا جانے والا گوشت ’حلال‘ ہے اور یہ تسلی کرنا انہوں نے، معاشرے نے اور حکومت نے اور ریاست نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا کہ انسانوں کو دیا جانے والا کھانا صحت بخش بھی ہے یا نہیں۔

کراچی کا یہ ریستوران کوئی واحد جگہ نہیں۔ صفائی ستھرائی کی حالت کا عالم ہمارے سامنے ہے۔ کچھ روز قبل تو پاکستان میں جرمن سفیر مارٹن کوبلر، جو عموماً پاکستانی کھانوں اور مختلف تفریحی مقامات کی تصاویر اپنی مسکراہٹوں کے ساتھ لگاتے نظر آتے ہیں، اسلام آباد کی ایک سڑک پر کچرے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ درخواست کرتے نظر آئے کہ یہ کچرہ انسانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

اس لیے صرف ’حلال‘ کی تختیاں لٹکی دیکھ کر اطمینان سے اپنے بچوں کو زہریلا کھانا کھلانے کے لئے تیار ہونے کے بجائے یہ اطمینان کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کھانا زہریلا نہ ہو۔ زہر کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Nov 2018, 7:03 AM