پاکستان: ہمیں ڈیم نہیں چلو بھر پانی کی ضرورت ہے!

موجودہ انڈس بیسن کا 95 فیصد پانی ہم زرعی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اس 95 فیصد پانی کا بھی 75 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ وجہ آبپاشی کا متروکہ نظام اور پانی جیسی نعمت کے احساس کی کمی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اکبر میو

کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کے بعد سے فیس بک پہ مقیم اکثر پاکستانیوں کو آج کل شدت سے ڈریمز آئے ہوئے ہیں۔ بالخصوص کالا باغ ڈیم ۔ کچھ حضرات پریشانی اور فکر کے اس عالم میں آرمی چیف اور چیف جسٹس کو دہائیاں دے رہے ہیں کہ تیسا، چھینی، رسا اور کانڈی لے کرجلدی میانوالی پہنچیں تاکہ نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے دیرینہ خواب کو عملی ’پاجامہ‘ پہنایا جاسکے۔ اگر آپ کو مولوی الیاس گھمن کا ایجاد کیا ہوا سرچ اور ریسرچ کا فرق معلوم ہے تو بات آگے بڑھانے میں کوئی ہرج نہیں۔

آبی سائنس کے ماہرین کا دعوی ہے کہ ڈیم پاکستان میں پانی کی متوقع قلت کو پورا کرنے کا ناکافی ذریعہ ہیں۔ قدرت نے انسان کو زمین پر اتارنے سے پہلے ہی بہترین انتظامات مکمل کرلئے تھے۔ زیر زمین ایکویفائر (Aquafers) قابل استعمال پانی کو زخیرہ کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں۔ سائنسی اندازے کے مطابق اکیلے شہر لاہور کے نیچے تیزی سے خشک ہوتے ایکویفائر میں سارے تربیلا ڈیم کا پانی بھی آ جائے تو وہ نہیں بھرے گا۔اگر 1772 مربع کلو میٹر کے رقبے میں9 ملین ایکڑ فٹ پانی آ سکتا ہے تو 8لاکھ مربع میل پہ پھیلے پاکستان میں موجود زیر زمین ایکویفائرز کالا باغ کے سائز کے چار سو کے قریب ڈیمز جتنا پانی زخیرہ کر سکتے ہیں، جس سے نا صرف ہر علاقے کو پینے کا پانی ملے بلکہ لاکھوں ایکڑ غیر آباد رقبہ آباد ہو جائے۔

یاد رکھیں ڈیم پانی کے قدرتی بہاؤ اور آبی چکر کے علاوہ ماحول کو بری طرح سے متاثر کرتے ہیں۔ ڈاؤن سٹریم فلڈنگ (Down Steam Flooding) کی وجہ سے آبی حیات معدوم ہو جاتی ہے۔ انسانی نقل مکانی ، سیاست، ڈیم سے ملحقہ تکنیکی مسائل اور خدشات الگ ہیں۔ اگر ڈیم اتنے ہی ضروری ہوتے تو قدرت ہر بندے کے ساتھ ڈیم لگا کے زمین پے بھیجتی۔ اب رہی بات بجلی پیدا کرنے کی اس کا سب سے سستا ذریعہ سولر توانائی ہے۔ پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے ڈیم کی پیداواری لاگت تقریباً 12 ارب ڈالر ہے اور آج شروع کیا جانے والا ڈیم پندرہ سال بعد بجلی پیدا کرنا شروع کرے گا، اسکے برعکس 12 ارب ڈالر سے ایک ہی سال میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر آپکو یقین نہیں آتا تو ابھی قائد اعظم سولر پاور پلانٹ کے اعداد و شمار چیک کر لیں۔ تمام تر سرکاری سرخ فیتوں اور کمیشن کے باوجود سو میگا واٹ کا پیداواری یونٹ 131 ملین ڈالر میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں تعمیر ہوا ہے۔ جی ہاں۔

موجودہ انڈس بیسن کا 95 فیصد پانی ہم زرعی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، چونکہ راقم خود بھی ایک چھوٹا سا کسان ہے تو اس ضمن میں کوئی دو رائے نہیں رکھتا کہ اس 95 فیصد پانی کا بھی 75 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ وجہ آبپاشی کا متروکہ نظام اور پانی جیسی نعمت کے احساس کی کمی ہے۔

ایک طرف تو ہم بیرونی قرضوں کو رو رہے ہیں اور دوسری طرف ڈیموں کا ورد الاپ رہے ہیں ۔ڈیم کوئی پانی کی ٹنکی نہیں جو ہزار دو ہزار میں بن جائے ۔ کھربوں روپے ادھارلینا پڑیں گے، کھربوں روپے کا سود ہو گا اور ڈونر ز کے نخرے الگ سے۔آپ کے لئے مشورہ یہ ہے کہ چٹے دن میں کالے ڈیم کی رٹ چھوڑیں۔ بجلی کی تقسیم کے نظام کو پرایئویٹ کریں، سولر بجلی لگائیں آہستہ آہستہ۔ شمالی علاقہ جات میں ہزاروں رن آف دی ریور بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کی گنجائش ہے۔ اور نظام آبپاشی کو بابو لوگوں کے چنگل سے نکال کر سنواریں ۔ انہی نہروں سے سردیوں اور برسات کے موسم میں اپنے ایکویفائر بھریں۔نہ پانی کم ہو گا نہ کوئی غم ہو گا۔

اور ہر چیز میں آرمی چیف اور بابے رمتے کو گھسیٹنا بند کر یں۔آرمی اگر عسکری سیمنٹ بناتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈیم بنانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن سر پے ہیں، ووٹ دیں اور ان کو سامنے لائیں جن کی یہ ذمہ داری ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

مرشد نےابھی ایک تصویر وٹس ایپ کی ہے ۔ آپ بھی دیکھ لیں۔ یہ تصویر کشن گنگا ڈیم کی افتتاحی تقریب کی ہے۔ کشن گنگا ہندوستان کے انتہائی عسکریت پسند زون کشمیر میں واقع ہے، از حد تلاش کے باوجود افتتاحی تقریب کے اسٹیج پہ نہ تو انڈین آرمی چیف نظر آ رہے ہیں نہ چیف جسٹس آف انڈیا۔

جو ہمارا حال ہے ہمیں ڈیم نہیں چلو بھر پانی کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار پاکستان میں ڈپٹی کمشنر اِنکم ٹیکس سیلز ٹیکس کے عہدے پر فائز ہیں، ای میل : akbarmayo@gmail.com)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔