پاکستان میں سوشل میڈیا پر قابو پانے کے لئے آرڈیننس جاری

وزیر قانون نے ’’جعلی خبروں‘‘کی تشہیر کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ترمیم شدہ قوانین کے تحت کسی کو بھی اس لعنت میں ملوث ہونے پرمستثنیٰ قرار نہیں دیا جائے گا۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

پاکستانی حکومت سوشل میڈیا کو لے کر کافی پریشان ہے اور وہ پریشان ہے کہ اس کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ اسی تعلق سے صدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے اتوار کے روز الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے لئے ایک آرڈی ننس جاری کیا ہےجس کے ذریعہ موجودہ قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیرقانون بیرسٹرفروغ نسیم نے خبردار کیا ہے کہ کسی کو بھی ’’جعلی خبروں‘‘کی تشہیر میں ملوث ہونے کی صورت میں استثنا نہیں دیا جائے گا۔

یہ پیش رفت وفاقی کابینہ کی جانب سے پیکا 2016 میں ترمیم کے صدارتی آرڈی ننس کی منظوری کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے۔ یہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا (ترمیمی) آرڈی ننس 2022ء کہلاتا ہے اورایک ہی وقت میں نافذالعمل ہوگا۔


پیکا کی دفعہ 20 میں ترمیم کی گئی ہے۔اس کے تحت کسی بھی شخص یا ادارے کو بدنام کرنے پرجیل کی سزا تین سال سے بڑھا کرپانچ سال کر دی گئی ہے۔مزید برآں، شکایت کنندہ کو متاثرہ شخص قراردیا گیا ہے۔ نابالغ ہونے کی صورت میں اس کا مجازنمائندہ یااس کا سرپرست کیس کی پیروی کرسکتا ہےیا ’’عوامی شخصیت یا عوامی عہدے کے حامل کے حوالے سے عوام کا رکن کہا گیا ہے‘‘۔ آن لائن عوامی ہتک عزت کو بھی قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا ہے۔

کسی بھی ’’شخص ‘‘کی تعریف میں توسیع کی گئی ہے۔اس میں کسی بھی کمپنی، انجمن یا افراد کا ادارہ شامل کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کسی بھی قانون کے تحت قائم کردہ کوئی ادارہ، تنظیم، اتھارٹی یا کوئی اورادارہ شامل کیا گیا ہے۔


ترمیمی آرڈی ننس میں اس قانون میں ایک نئی دفعہ شامل کرنے کی بھی شرط عاید کی گئی ہے ۔اس کے تحت عدالت کو مقدمہ ختم کرنے کی ٹائم لائن دی گئی تھی۔’’ٹرائل تیزی سے ختم کیا جائے گا، لیکن ترجیحاً اس کیس کا نوٹس لینے کے چھے ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں لگنا چاہیے‘‘۔

آرڈی ننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کو متعلقہ ہائی کورٹ کو کسی بھی زیرالتوا مقدمے کی ماہانہ پیش رفت رپورٹ پیش کرناہوگی اور عدالت کی جانب سے مقدمے کو تیزی سے ختم کرنے میں ناکامی کی وجوہات بتانا ہوں گی۔


اگر ہائی کورٹ ذیلی دفعہ (2) کے تحت عدالت کی طرف سے دی گئی وجوہات کو قابل قبول سمجھتی ہے تو وہ عدالت کی وضاحت کو قبول کر سکتی ہے اور مقدمے کو نمٹانے کے لیے نیانظام الاوقات تجویز کرسکتی ہے۔

دوسری طرف، اگر ہائی کورٹ نے مقدمے کو تیزی سے مکمل کرنے میں مشکلات اور رکاوٹوں کا اعتراف کیا، جو وفاقی یا صوبائی حکومت یا اس کے کسی افسر کے ذریعے دور کی جا سکتی ہیں تو وہ وفاقی یا صوبائی حکومت یا اس کے کسی بھی افسرسے اس طرح کی رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرے گی۔


اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ پریذائیڈنگ افسر یا عدالت کے کسی بھی عہدہ دار کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے سکتی ہے اگر وہ مقدمے کو نمٹانے میں تاخیر کے ذمہ دار پائے جاتے ہیں۔اس کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس دفعہ کے تحت کام کرنے کے لیے عدالت کے دیگرافسروں کے ساتھ ایک جج کو بھی نامزد کرے گا۔

وزیر قانون کا 'جعلی خبروں' پر انتباہ

اس سے قبل وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ’’جعلی خبروں‘‘کی تشہیر کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ترمیم شدہ قوانین کے تحت کسی کو بھی اس لعنت میں ملوث ہونے پرمستثنیٰ قرار نہیں دیا جائے گا۔


کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ اس قانون میں ترامیم کے نفاذ کے بعد جعلی خبریں پھیلانا ایک قابل گرفت جرم سمجھا جائے گا۔ یہ ایک ناقابل ضمانت جرم بھی ہوگا جس میں چھے ماہ تک قید کی سزا ہوگی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ترمیم شدہ قانون جعلی خبروں کو روکنے میں مدد گارہوگا۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا،وہ ختم ہو چکا ہے، اب ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

وزیر نے وضاحت کی کہ یہ قانون بنیادی طور پر کسی عوامی شخصیت یا عوامی دفتر کے حامل کے لیے ہے جبکہ عوام کی جانب سے غلط معلومات یا جھوٹی خبروں کے بارے میں شکایت بڑے پیمانے پردرج کی جاسکتی ہے۔


انھوں نے نیوزکانفرنس میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کی:’’فرض کریں، ندیم نامی ایک تجربہ کار فلمی اداکار کے بارے میں جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ندیم خود شکایت درج کرانے کے لیے آئیں۔ ان کے بجائے کوئی بھی شکایت کے ساتھ متعلقہ اتھارٹی سے رجوع کرسکتا ہے اور اس کیس کو قانون کے تحت چھے ماہ کے اندر ختم کرنا ہوگا‘‘۔

وزیر نے کچھ حالیہ مثالوں کا حوالہ دیا جن میں بعض معززین کو جھوٹی معلومات کا نشانہ بنایا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک امرہے کہ چند ہفتے قبل سابق چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی تھی۔ اسی طرح خاتون اوّل بیگم بشریٰ عمران کے بارے میں غلط معلومات کی تشہیر کی گئی کہ وہ اپنا گھر چھوڑکر چلی گئی تھیں۔ وزیرنے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسی غلط کہانیاں کیسے پھیلاسکتا ہے؟ (العربیہ ڈاٹ نیٹ کے انپٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔