پاکستان: پشاور سانحہ کو چار برس مکمل، زخم ابھی تک تازہ
پشاور ميں آرمی پبلک اسکول پر شدت پسندوں کے خونريز حملے کے چار برس مکمل ہونے کے موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ نے دہشت گردانہ کارروائيوں ميں ملوث متعدد مجرمان کے ليے سزاؤں کی منظوری دی۔
پاکستان کے شہر پشاور کے اے پی ایس (آرمی پبلک اسکول) میں معصوم بچوں کے قتل عام کی برسی کے موقع پر پاکستان بھر میں دعائیہ تقاریب، تعزیتی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ شہدا کی یاد میں عام شہریوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے فاتحہ خوانی کی۔
16 دسمبر 2014 کو آج ہی کے دن پشاور میں آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں کونشانہ بنایا تھا اور 100 سے زیادہ طلباء کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔
مہلوک بچوں کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے۔
ادھر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاويد باجوہ نے ملٹری کورٹس ميں کارروائی کے بعد پندرہ مجرموں کے ليے سزائے موت کی منظوری دے دی ہے۔ سزائے موت کے حقدار قرار دیئے جانے والے دہشت گرد 32 سیکورٹی اہلکاروں اور 2 شہريوں کی ہلاکت ميں ملوث تھے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کب ہو گا۔
پاکستان نے سزائے موت پر عمل در آمد کے خلاف عائد عارضی پابندی سن 2014 ميں ختم کر دی تھی۔ يہ پيش رفت پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر شدت پسندوں کے ايک حملے کے بعد سامنے آئی تھی۔ 16 دسمبر سن 2014 کے روز ہوئے اس حملے ميں ڈيڑھ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن کی بھاری اکثريت اسکول کے بچوں پر مشتمل تھی۔
پاکستانی تاريخ کے بدترين حملوں ميں شامل اس واقعے کو آج بروز اتوار 4 برس مکمل ہو گئے ہيں۔ پاکستان بھر میں مختلف دہشت گردانہ کارروائيوں ميں ملوث افراد کو آج کے روز علامتی طور پر سزائيں سنائی گئيں۔ فوج کی جانب سے جاری کردہ ايک بيان ميں سزائے موت کے علاوہ 20 ديگر مجرمان کو مختلف مدتوں کے لئے سزائے قيد بھی سنائی گئی۔ يہ سزائيں ان افراد کو سنائی گئيں، جو سلامتی سے متعلق دستوں، مسيحی برادری کے ارکان اور تعليمی اداروں پر حملوں ميں ملوث تھے۔
پاکستان ميں فوجی عدالتوں کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہے اور يہ عوام کے لئے نہيں کھلے ہوتے تاہم اپنا دفاع کرنے والوں کو اپنے طور پر وکيل کے انتخاب کا اختيار حاصل ہوتا ہے۔ فوجی عدالتوں ميں دہشت گردی سے متعلق معاملات پر کارروائی ہوتی ہے۔
(ڈی ڈبلیو ان پٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔