’آزادی مارچ‘ سے مشکل میں عمران خان، حکومت پر منڈلائے خطرات کے بادل!
27 اکتوبر کو جب لوگ عمران حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے تھے تو اسی وقت محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا بڑا اثر آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملے گا، اور ایسا ہی ہوا۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے لیے مشکلات میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ کشمیر ایشو پر پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑ گئے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں میں موجود معاشی بحران سے وہ لاکھ کوششوں کے بعد بھی نکل نہیں پا رہے ہیں۔ اس درمیان جمعیۃ علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعہ نکالے گئے آزادی مارچ نے تو جیسے عمران خان کی الٹی گنتی ہی شروع کر دی ہے۔
دراصل عمران خان کے خلاف پاکستان کی سڑکوں پر ایک بڑا ہجوم امنڈا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فضل الرحمن کی قیادت میں پاکستان کے کراچی سمیت سبھی بڑے شہروں سے 27 اکتوبر کو جس آزادی مارچ کی شروعات ہوئی تھی، آج وہ اسلام آباد میں ایک قہر برپا کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں نکلے اس مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ہیں اور عمران خان کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کر رہے ہیں۔
27 اکتوبر کو جب لوگ حکومت پاکستان کے خلاف سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے تھے تو اسی وقت محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا بڑا اثر آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ حالانکہ اس آزادی مارچ کو 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں ختم ہونا تھا، لیکن لاہور میں ٹرین حادثہ کی وجہ سے پروگرام کو ایک دن کے لیے ملتوی کرنا پڑا اور آج اسلام آباد میں نماز جمعہ کے بعد مولانا فضل الرحمن نے باضابطہ عوام سے خطاب کیا اور عمران حکومت کی پالیسیوں کے خلاف پرزور طریقے سے آواز بلند کی۔
دیکھا جائے تو معاشی امور سے لے کر خارجی امور تک کے محاذ پر عمران خان حکومت مشکل میں نظر آ رہی ہے۔ کشمیر معاملہ پر پٹخنی کھانے کے بعد پی ایم عمران کو فوجی سربراہ باجوا بھی یکساں حکومت چلانے کا اشارہ دے چکے ہیں جو ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ محض 14 مہینے میں عمران خان ’ہیرو‘ سے ’زیرو‘ بنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
بہر حال، آزادی مارچ اس وقت زبردست شکل اختیار کیے ہے کیونکہ اس مارچ میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی اپوزیشن پارٹیوں کے حامی بھی شامل ہو گئے ہیں اور عمران مخالف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس مارچ کے پیش نظر پاکستانی افسران نے سیکورٹی کا سخت انتظام بھی کیا ہوا ہے۔ اہم سرکاری عمارتوں اور سفارتی علاقہ سمیت ’ریڈ زون‘ کی طرف مظاہرین کو جانے سے روکنے کے لیے بیریکیڈ لگائے گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، اس مظاہرہ سے خوفزدہ عمران حکومت نے اضافی پولس دستہ اور نیم فوجی دستہ کی تعیناتی کے علاوہ کئی جگہوں پر فوج کو بھی تعینات کر دیا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عمران حکومت پر جو خطرے کا بادل منڈلا رہا ہے، وہ صاف ہوتا ہے یا پھر انھیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔