پاکستان: عمران خان کی پارٹی ’پی ٹی آئی‘ نے لی راحت کی سانس، انتخابی نشان ’بلا‘ واپس ملا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی نشان ’بلا‘ واپس مل گیا ہے، پیشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے جس سے پی ٹی آئی نے راحت کی سانس لی۔

<div class="paragraphs"><p>عمران خان / ویڈیو گریب</p></div>

عمران خان / ویڈیو گریب

user

قومی آواز بیورو

پاکستان میں آئندہ سال فروری ماہ میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ سبھی پارٹیاں اس انتخاب کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس درمیان گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج پیش کیا تھا جس پر آج سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ پیشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔

آج اس معاملہ پر سماعت کرتے ہوئے پیشاور ہائی کورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے  پرحکم امتناع جاری کیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل رہے گا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بنچ میں کیس سنا جائے۔ دراصل پی ٹی آئی کی جانب سے پیشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں الیکشن کمیشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا، جبکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکلا علی ظفر، بابر اعوان اور خود چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل پیش کیے۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل پیش کرتے ہوئے کئی اہم باتوں کی طرف عدالت کی توجہ دلائی۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں۔ 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا، پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ الیکشن کمشنر پر اعتراض آ گیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے۔ الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

علی ظفر نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا۔ اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے۔ مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں۔ اس طرح ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے باہر کر دیا گیا۔ علی ظفر کے دلائل پر جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ اس کیس میں جو درخواست گزار تھے ان کا الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ذکر ہے یہ کون ہیں؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں۔ الیکشن نہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے لیکن ہمیں یہاں الیکشن سے باہر نکالا جا رہا ہے۔


بعد ازاں عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عمر ایوب جنرل سکریٹری نہیں۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کیسے مقرر کیا۔ اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں ہے۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جا سکتا ہے۔ آئین و قانون یہی کہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔