افسانہ: تقسیم کی ضرب... اکبر میو
ریل گاڑی نے سائرن دیا اور چل پڑی۔ جیسے ہی بوگی انتظار گاہ کے جنگلے سے گزرنے لگی۔ پیارے سنگھ نے اپنی بیگم کو آواز دی،” لچھا” اور ہاتھ کا اشارہ کیا۔
پیارے سنگھ کا ولایت پلٹ اکلوتا بیٹا ڈاکٹر لچھمن سنگھ 31 برس کی عمر میں ہی گورمنٹ کالج لائیلپور میں شعبہ انگریزی کی صدارت سنبھال چکا تھا۔ انگریزوں سے اچھے روابط اور اپنی نیک نیتی کی بنا پر پیارے سنگھ ضلع کے سب سے بڑے ٹھیکیدار کے طور پے جانا جاتا تھا۔ گوردوارے والی سڑک پر دو ایکڑ کا شاندار بنگلہ ایک سال پہلے ہی اپنے لچھمن سنگھ کی شادی کے لئے تیار کروایا تھا۔ اپنے بیٹے کے لئے سانگلہ ہل کے ڈاکٹر گرسرن سنگھ کی بیٹی سکھ پریت کور کا انتخاب اس بات کی ضمانت تھا کہ پیارے سنگھ کی بیوی امرو کور ایک سگھڑ خاتون تھیں ۔ پیسے اور سکھ کی ریل پیل تھی۔ ناداروں اور حقداروں کے لئے پیارے سنگھ کے دروازے آٹھوں پہر بلا تفریق کھلے رہتے۔ روزوں میں سب بڑا زکاتی پیارے سنگھ، ہولی پے سارے شہر میں مفت رنگ بانٹنے والا پیارے سنگھ ، کرسمس کی باری آتی تو سب سے بڑا کرسمس ٹری پیارے سنگھ بنواتا۔ سب دھرموں کے مان رکھنے والے پیارے سنگھ پر سارا شہر مرتا تھا۔ باوجود شاندار کاروبار کے پیارے سنگھ کے بیٹے نے پروفیسری اختیار کی تا کہ اپنے علاقے میں علم کی روشنی پھیلا سکے۔ زندگی کے بہاؤ میں کئی صدیوں کا ٹھہراؤ تھا۔ لگتا تھا کہ یو ں ہی دھوپ چھاؤں کا تعاقب کرتی رہے گی اور چاندبادلوں میں چھپتا رہے گا۔ ہر سال گیہوؤں کے ہرے بھرے کھیت زمین کو رونق بخشتے رہیں گے۔ میلے اور بازارمیں گہما گھمی دوڑتی رہے گی۔
خیال ٹوٹا، ایک دن لچھمن سنگھ کے کان میں آواز پڑی تو اس نے بڑی فکر مندی کے ساتھ رات کے کھانے پر اپنے گھر والوں سے ذکر چھیڑا اور کہا"انگریز جا رہے ہیں۔" پیارے سنگھ نے استفسار کیا "کیسے"۔ لچھمن سنگھ نے وضاحت کی ، "انگریزملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، بٹوارہ ہو گا ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ" ۔ سکھ پریت جو کہ امید سے تھیں بولیں، " جو بولے سو نہال ، ست سری اکال ، ہم واہے گرو کے پیروکار ہیں ، کیسا بٹوارہ اور کونسی تقسیم ۔" گھر والے لچھمن کی بات کو مفروضہ سمجھ کر آئی گئی کر گئے۔ دوسرے دن پیارے سنگھ اپنے ایک انگریز دوست سے ملنے کچہری گئے تو دفتری ماحول میں تھوڑی عجلت اور غیر یقینی کی سی کیفیت متلا رہی تھی۔ ساری زندگی ضرب اور تقسیم میں کھیلنے والا ٹھیکدار حالات کی جمع تفریق سے پریشان گھر لوٹا۔
دو دن بعد آدھی رات کو سرپنچ نے پیارے سنگھ کی کوٹھی کا دروازہ پیٹنا شروع کیا تو محلہ اکٹھا ہو گیا۔چوکیدار نے دروازہ کھولا تو شہر کے نامور سکھ سیٹھ اور نامی گرامی ہندو لوگ دروازے پر تھے۔ سب اندر آئے ۔ گھر کے دالان میں تمام لوگ کھڑے سرگوشیاں کر نے لگے۔ لائلپور ریلوے اسٹیشن کے ہندو اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ "دلی سے لائلپور آنے والی ریل گاڑی پر پانی پت جنکشن پر حملہ ہوا ہے، جو بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے، کچھ گر کر مر گئے، کچھ اپنوں پے کٹ مرے، کچھ کمسن دبک گئے، کہیں موت چوک گئی۔ ٹرین لاہور پہنچی تو، انسانی اعضا کے ملبے تلے دبے شیر خواروں اور بلکتی ہوئی چند بدقسمت روحوں کے سوا ریل میں کوئی جاندار چیز نہیں بچی۔ آبادکاری کے افسران نے ٹرین کو والٹن رفیوجی کیمپ کی طرف موڑ دیا ہے۔خبر سارے ملک میں پھیل چکی ہے اور حالات کشیدہ ہو چکے ہیں۔" اتنے میں شہر کے انگریز مجسٹریٹ ویلم جیکب بھی آگئے۔ پیارے سنگھ سے علیحدگی میں کوئی بات کی اور چل دیئے۔
پیارے سنگھ نے لمبی سانس لیتے ہوئے دالان میں جمع لوگوں کو مخاطب کیا" دوستو آپ سے گزارش ہے کہ کل ریلوے اسٹیشن کے قریب بڑے گوردوارے میں سب لوگ جمع ہونگے ۔ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ہمیں ایک جگہ رہنا ہو گا۔ سب سہم گئے۔ پاؤں تلے سے زمیں سرکنے لگی۔ کچھ لوگوں نے اپنے مستقبل کا اسی وقت فیصلہ کر لیا۔ خوف نے سکون نوچ لیا۔ صبح تک سارا شہر ویران تھا۔ لوگ الگ الگ شاہراہوں ، راستوں اور پگڈنڈیوں سے نکلے تھے مگر منزل سب کی ایک تھی، زندگی۔ بڑے گوردوارے میں چند سو لوگ ہی بچے تھے، جن میں پیارے سنگھ، اسکی بیگم ، بیٹا اور بہو بھی شامل تھے۔فضا میں خاموشی تھی، دھرتی دھڑک رہی تھی۔ سامنے ریلوے اسٹیشن پے فوجیوں کی کچھ نفری تھی۔
یوں ہی تین دن گزر گئے۔ کھانے پینے کو گوردوارے میں گزارے کا سا بندوبست تھا، لیکن ہر کوئی اپنے گھر جانا چاہتا تھا۔ کسی کو اپنے بھوکے جانوروں اور پرندوں کا خیال تھا، کسی کو اپنے گھر کی باس نے آ لیا، کوئی اپنے مال و متاع کے اندیشے میں تھا۔ پیارے سنگھ کے لاکھوں روپے بنک میں محفوظ تھے، ہزاروں کا سامان گھر میں پڑا تھا لیکن اسے صرف اپنے لوگوں کی پرواہ تھی۔ تاریکی گہری ہوئی تو سب اپنی تدبیروں کے تکیے لگا کر سو گئے۔ پچھلی رات کو بلوایوں نے گوردوارے پہ ہلہ بول دیا۔ لیکن صورت حال اسٹیشن پے موجود فوجیوں نے فوری طور پر سنبھال لی۔ بلوائی گوردوارے کی عمارت کو آگ لگا کر بھاگ گئے۔کوئی جانی نقصان نہ ہوا ، آگ بھی بھجا دی گئی، فوجیوں نے گوردوارے کے دروازے پے پہرہ بھٹا دیا ۔ خدا خدا کر کے اندھیرا چھٹا تو ہر چہرے پے کچھی تقسیم کی لکیر بڑی واضح تھی۔ پیارے سنگھ نے اپنی بیوی کی گود میں سکھ پریت کا سر دیکھا تھا اس کا دل بیٹھ گیا۔ کل رات ہی پیارے سنگھ کی بیگم اسے نے بتایا تھا کہ سکھ پریت کے دن بہت قریب آ گئے ہیں نہ تو یہاں کوئی ڈاکٹر ہے نہ کوئی دائی ہے۔ اگر کچھ ہو سکے تو پریت کو امرتسر پہنچایا جائے، کم سے کم ڈاکٹر گرسرن سنگھ تو ہے وہاں۔
خوف سےاتنے پیٹ بھرے ہوئے تھے کہ کسی کا بھی کھانا کھانے کو جی نہ کر رہا تھا۔ رکی ہو ئی ہوا میں سورج چڑھ ر ہا تھا، حبس بڑھتی جا رہی تھی اور پسینہ پھیلتا جا رہا تھا۔ بدگمانی اور غیریقینی پورا دن نگل گئی۔ تاریکی اترتے ہی اسٹیشن سے خبر ملی کہ شیر کوٹ سے ہندوستان جانے کے لئے مسافر ٹرین نکل چکی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں سب اسٹیشن کے دروزے ۔ ایک فوجی افسر نے میگا فون اسپیکر سے اعلان کیا کہ ٹرین میں جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا صرف بزرگ ، بچے اور بیمار خواتین ہی ٹرین پے سوار ہو سکیں گی۔ ریل بابو نے قطار بنائی تو لچھمن سنگھ اور اسکے ساتھ دیگر نوجوانوں کو قطار سے نکال دیا گیا۔ پریت کور اور رانی کور نے بھی قطار توڑ دی اور لچھمن سے لپٹ گئیں۔ دور کھڑے پیارے سنگھ کی موٹی موٹی آنکھوں سے دو جھرنے پھوٹ کر اسکی سرخ گالوں پے سرمئی داڑھی میں گرنے لگے۔ پیارے سنگھ کی چشم تر دیکھ کر ہر دیدہ ور زار زار رویا۔ بادل بھی رو دیئے۔موسلا دھار مینہ برسنے لگا۔ بارش کے باعث ریل بابو مسافروں کی قطار کو پلیٹ فارم کے شیڈ تلے لے آئے۔ پچاس مسافروں کی گنجائش تھی۔ ریل بابو نے فوجیوں کی نگرانی میں دو سو مسافر چھانٹی کئے۔ باقی کو مطلع کر دیا گیا کہ ٹرین میں انکی جگہ نہیں بن رہی ۔ مسافروں سے لد پدھ گاڑی رکی جسکی چھت تک بھری ہوئی تھی، پیارے سنگھ نے رانی کور اور پریت کور کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور کچھا کچھ بھری ہوئی بوگیوں میں جگہ ڈھونڈنے لگا۔ ایک بوڑھی عورت نے بوڑھے سکھ کے بازؤں میں جھولتی ہوئی ممتائیں دیکھیں تو آگے لپک کر پریت کور کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بوگی میں تمام سیٹیں نکال کر جگہ ہموار کی گئی تھی۔ سب خواتین بوگی کے فرش پے بیٹھی تھیں۔ پیارے سنگھ دروزے میں لٹک گیا۔ رانی کور اور پریت کور کو دروازے کے قریب کی دیوار کے ساتھ جگہ ملی۔ ریل گاڑی نے سائرن دیا اور چل پڑی۔ جیسے ہی بوگی انتظار گاہ کے جنگلے سے گزرنے لگی۔ پیارے سنگھ نے اپنی بیگم کو آواز دی،" لچھا" اور ہاتھ کا اشارہ کیا۔ دونوں خواتین نے کھڑکی سے دور ہوتا ہوا لچھمن دیکھا۔ ریل کی اسٹیم اور شب کی تاریکی نے جلد ہی منظر دھندلا دیا۔
یکا یک ایک بجلی سی کوندی، تمام باقی ماندہ نوجوانوں نے نکلتی ہوئی گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی۔ ریل اہلکار سیٹیاں بجاتے رہ گئے، کوئی ہاتھ نہ آیا۔ سب کے سب کھڑکیوں سے لٹک کر بوگیوں کی چھتوں پر سوار سواریوں سے جا ملے۔ لمحوں میں گاڑی سبک رفتار ہو گئی۔ انگریزی کا پروفیسر بھی گاڑی کی پچھلی بوگی کی چھت پے روشندان کے ڈھکن کو مضبوطی سےتھامے بیٹھا تھا۔ چند ساعتوں میں سارے غم پھر گئے۔ ریل کی چھت پے ہر چہرہ پر امید تھا۔ رات کے دس بجنے کو تھے۔ بادلوں نے رات کی تاریکی کو اور گہرا کر دیا تھا۔ ٹرین کی روشنی میں غور کرنے سے محسوس ہوتا تھا کہ پٹری کے دونوں اطراف بارش کا پانی جمع تھا۔ منڈی ڈھابن سنگھ ریلوے اسٹیشن پے ٹرین رکنے لگی تو جانوں کے لالے پڑ گئے۔ شمشیروں سے لیس جتھےنے ٹرین پر حملہ کر دیا۔ ٹرین ڈرائیور نے خطرہ بھانپتے ہوئے ٹرین کی بریک سے پاؤں اٹھا لیا ۔ گاڑی تو چل پڑی لیکن شیخوپورہ پہنچنے تک اکثر تو جان گنوا بیٹھے تھے اور باقی عزت و مال۔ بوگیاں خون سے دھل گئیں۔ پیارے سنگھ موقع پہلے ہی، اپنی بیگم اور پریت کور کو لے کے بوگی کے آخر میں لیٹرین چھپ گیا تھا۔ حملہ آوروں نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔
لیکن بوڑھے سکھ کے بازؤں میں جانے کہاں سے آہن اتر آیا۔ شیخوپورہ آنے سے پہلے ہی پریت کور نے اسی تنگ سی لیٹرین میں بیٹے کو جنم دے دیا۔ ننھی سے جان پہ ایک جھلک ڈالی اور اسی کونے میں ڈھیر ہو گئی۔ اسٹیشن پے گاڑی رکی، زخمیوں کی چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ پیارے سنگھ نے احتیاط سے دروازہ کھولا تو دیکھا ہر طرف خون سے لت پت لاشے پڑے تھے۔ اور چند زخمی کرب سے کراہ رہے تھے۔ پریت کور کو باہر نکال کے بوگی کے فرش پے لٹایا، نبض ڈوب رہی تھی۔رانی کور نے اپنے خاوند کی پگڑی میں ننھی جان کو لپیٹا ہوا تھا۔ پولیس اور فوج کے دستے لالٹین سے ٹرین کا معائینہ کر رہے تھے ۔ جلد ہی ٹرین کو فوری روانہ ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ رات ایک بجے مردہ لوگوں کی ٹرین زندہ دلان کے شہر لاہور میں داخل ہوئی۔ پوری ٹرین میں ایک سو سے بھی کم نفوس زندہ تھے۔ تھکاوٹ سے چور پیارے سنگھ بوگی کے فرش پے نڈھال بیٹھا تھا۔ پیارے سنگھ کی بیوی چھوٹے بچے کو پریت کے سرہانے لے کے بیٹھی تھی جسے بوگی میں ہی موجود ایک عورت نے اپنا دودھ پلایا دیا تھا۔ اندھیرا تھا، سناٹا تھا۔ کوئی بوگی کے پچھلے دروازے سے ٹرین میں آیا، دیا سلائی جلائی، اور ایک لاشے کی تلاشی لینے لگا تو پیارے سنگھ کی گرج دار تنبیہ پر واپس دوسری بوگی میں دوڑ گیا۔
ٹرین لاہور اسٹیشن پر ہی تھی کہ آدھ موہی سکھ پریت نے دم دے دیا۔ بچے کو فرش پر لٹا کے رانی کور اپنی مردہ بہو سے لپٹ گئی ، دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ پیارے سنگھ نے جھپٹ کے رانی کور کے منہ پے ہاتھ رکھ کے کان میں سرگوشی کی کہ ابھی ہم پاکستان کی حدود میں ہیں اور خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ اب ہماری زندگی کا مقصد اس ننھی جان کو بچانا ہے۔ صدمہ گہرا تھا۔ رانی کور بے ہوش ہو گئی۔ پیارے سنگھ نے بچے کو گود میں لے لیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ چار دنوں میں زندگی کی دوڑ کہاں لے آئی تھی۔ کیا ہوتا ، کیا ہو گیا اور کیا ہو گا ۔ ریل گاڑی نے سائرن دیا اور چل پڑی مگر زندگی وہیں رک گئی۔ ایک بہادر انسان، باوفا شوہر اور شفیق باپ اندھیری رات میں کسی گمنام بوگی کی دیوار سے ٹیک لگائے، چار گھنٹے کے پوتےکو گود میں لئے سسکیاں لے کر رو رہا تھا۔ اپنا رنج اور الم اتنا تھا کہ بوگی کے دوسرے زندہ اور مردہ مسافروں کے غم کا اندازہ تک نہ تھا۔ ریل گاڑی لاہور شہر سے باہر نکل رہی تھی۔ بوگی میں پھر کوئی داخل ہوا جسکے ہاتھ میں تلوار تھی جو بوگی کی دیوارسے ٹکرا کر کھنکی۔ آہستہ آہستہ ایک ہیولہ جب آگے بڑھتا ہوا لگا تو پیارے سنگھ نے اپنی آنکھیں بند کیں ۔ لمحے بھر کے لئے واہے گرو کا تصور کیا، بچے کو فرش پے لٹایا۔ دائیں ہاتھ سے اپنی کرپان نکالی۔ ہیولہ بلکل پیارے سنگھ کے سامنے سے گزرنے لگا تو باسی خون کی باس آئی۔ پیارے سنگھ نے اپنی ساری تونائی جمع کی، بجلی کی سی تیزی سے کھڑا ہو اور گھما کے کرپان اجنبی گلے پے رکھی اور کمر پے پاؤں سے دکھا دیا ۔ نوجوان بوگی کی دیوار سے ٹکراتا نیچے گر گیا۔ ننھے بچے نے چیخ کر رونا شروع کیا تو، رانی کور بڑبراتی ہوئی ہوش میں آئی۔ پیارے سنگھ نے بچے کو گلے سے لگایا اور اپنی بیگم کو سہارے سے بٹھایا اور بتایا کہ منزل قریب ہے۔ جیسے ہی اسکے حواس بحال ہوئے وہ پھر اپنی بہو کی لاش سے لپٹ کر رونے لگی۔ رات کی تاریکی کچھ مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ٹرین اٹاری اسٹیشن کے یارڈ میں داخل ہوئی۔ پیارے سنگھ نے دیکھا کہ پہلے سے دوسری لائن پے اک ٹرین کھڑی تھی جسکے ارد گرد سکھ افسر جمع تھے۔ بوگیاں جلی ہوئیں تھیں، انسانی گوشت جلنے کی بو آ رہی تھی۔ ٹرین کے ساتھ ساتھ انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے۔ پلیٹ فارم روشن تھا۔ پیارے سنگھ کی ٹرین آگے بڑھی تو منظر مزید واضح ہو گیا۔ دوسری لائن پہ کھڑی گاڑی کا بھی یہی حال تھا، بس ذرا سا فرق یہ تھا کہ اسکا رخ لاہور کی طرف تھا۔ ابھی پیارے سنگھ کھڑکی سے دوسری ریل گاڑی کا حال دیکھ رہا تھا کہ سکھ پولیس اہلکار پیارے سنگھ کی بوگی میں داخل ہو گئے اور مخاطب ہوئے کہ مسافر نیچے آ جائیں ہندوستان آ چکا ہے ۔ مگر پیارے سنگھ کی نظریں دوسری ٹرین پر جمی ہوئی تھیں۔ پولیس والے آگے بڑھے تو رانی کور نے سر پر دوپٹہ سنبھالا۔ گاڑی میں لاشیں بکھری ہوئیں تھیں۔ لالٹین سے ساری بوگی روشن ہو گئی۔ مگر پیارے سنگھ کی نظر دوسری ٹرین پے جمی ہوئیں تھیں۔ اتنے میں رانی کور نے چیخ ماری " ؒلچھے" ۔ بوگی کی دیوار کے ساتھ لچھمن سنگھ لیٹا ہوا تھا جسکے گلے میں کرپان کا گہرا کاٹ تھا۔
(مضمون نگار پاکستان میں ڈپٹی کمشنر اِنکم ٹیکس سیلز ٹیکس کے عہدے پر فائز ہیں، ای میل : akbarmayo@gmail.com)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔