عمران خان صاحب! بہت کٹھن ہے ڈگر ’نئے پاکستان‘ کی

عمران خان کی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں. اس لئے اتحادیوں کے دباؤ میں وہ کتنے وعدے پورے کر پائیں گے، یہ وقت بتائے گا۔ پاکستان کے نئے کپتان کے لئے ’نئے پاکستان‘ کو حاصل کرنے والی ڈگر بہت کٹھن ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

22سال کی سخت جدو جہد کے بعد66 سالہ عمران خان نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لے لیا ، وہ پاکستان کے اب تک کے 22 ویں وزیر بن گئے ہیں ۔ 1952میں لاہور میں پیدا ہوئے عمران خان کو بچپن سے کرکٹ کا شوق تھا اور اسی شوق نے انہیں آج اس مقام تک پہنچایا ۔ کرکٹ کی وجہ سے عمران خان پوری دنیا میں مقبول ہوئے اور آج ان کی یہی مقبولیت ملک کے وزیر اعظم بننے کی وجہ بنی ۔

عمران خان نے نوجوانی میں ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے کرکٹ کی دنیا میں ایک نیا گلیمر متعارف کرایا اورآج تک ان کا شمار دنیائےکرکٹ کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔عمران خان کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سن 1992ء میں عالمی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اس کامیابی کے باعث ہی وہ پاکستان میں پہلا کینسر اسپتال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ سن 1996ء میں عمران خان نے سیاسی جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی بنیاد رکھی اور انہوں نے 1997ء کے انتخابات میں حصہ لیا ، لیکن کامیابی حاصل نہ کر پائے۔ سن 2002 میں عمران خان میانوالی سے قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ عمران خان نے سابق آرمی جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہونے والے انتخابات کے احتجاج میں قومی اسمبلی کی نشست کو سن 2007ء میں چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر پاکستانی سیاسی منظرنامے میں اپنے آپ کو شامل کرنے میں بہرحال کامیاب ہو گئی تھی۔ اس جماعت نے خیبر پختونخوا میں سب سے بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرتے ہوئے حکومت سازی کی تھی۔ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن ) حکومت کے خلاف بطور اپوزیشن بہت متحرک رہی ہے۔ عمران خان نے پاناما لیکس معاملےمیں عدالت جانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کیس میں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل قرار دیا گیا ، جس نے عمران کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کردی۔

بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان میں جمہوری عمل کی روانی کے لیے ضروری ہے کہ نو منتخب حکومت کو عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا موقع دیا جائے۔ تاہم کئی ناقدین کے مطابق عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں عوام کو خوش کرنے والی سیاست اختیار کرتے ہوئے ایسے وعدے کیے ہیں، جن کا وفا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

عمران خان ایک بہت بڑا ہدف حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ان کی نئی حکومت کو کمزور معیشت، خارجہ پالیسی میں سویلین خودمختاری، داخلی امن و امان اور پارلیمان میں متحرک اپوزیشن جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کا ایک طبقہ عمران خان کو شدت پسندوں کے خلاف سخت بیانیہ نہ اپنانے پر تنقید کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں عمران خان کو اب بطور سربراہ حکومتی چیلنجز کے ساتھ اپنی قیادت میں ملک کو صحیح سمت میں لے کر چلنا ہوگا۔ عمران کے لئے سب سے بڑا چیلنج عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہے ۔ انہوں نے عوام کو جو نئے پاکستان کا خواب دکھا دیا ہے اس کو شرمندہ تعبیر کرنا انتہائی مشکل عمل ہے ۔ کیونکہ ان کی اپنی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے اتحادیوں کے دباؤ میں وہ کتنے وعدے پورے کر پائیں گے ، یہ وقت ہی بتائے گا ۔ پاکستان کے نئے کپتان کے لئے ’نئے پاکستان‘ کو حاصل کرنے والی ڈگر بہت کٹھن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔