عمران خاں کے خلاف سائفر کیس کا جیل ٹرائل روکنے کا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 16 نومبر تک سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم دیتے ہوئے اسٹے آرڈر جاری کر دیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد کر دی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس کا جیل ٹرائل روکنے کا حکم دیتے ہوئے پرسوں تک حکم امتناعی جاری کر دیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اوپن کورٹ سماعت اور جج آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کی تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ خاندان کے چند افراد کو سماعت میں جانے کی اجازت کا مطلب اوپن کورٹ نہیں، جس طرح سے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی گئی، اسے بھی اوپن کورٹ کی کارروائی نہیں کہہ سکتے۔


اٹارنی جنرل نے عدالت کو ٹرائل کی کارروائی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کی منظوری دی۔ وفاقی کابینہ کی جیل ٹرائل منظوری کا نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کر دیں گے۔ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ وہ نوٹیفکیشن ہم دیکھیں گے اس میں کیا لکھا ہوا ہے، تمام ٹرائلز اوپن کورٹ میں ہوں گے اس طرح تو یہ ٹرائل غیر معمولی ٹرائل ہو گا۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسے کیا غیر معمولی حالات تھے کہ یہ ٹرائل اس طرح چلایا جارہا ہے ؟ آپ نے ہمیں بتانا ہے کہ دراصل ہوا کیا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ تمام متعلقہ اداروں سے ریکارڈ لیکر عدالت کے سامنے رکھ دیں گے۔ جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں تینوں نوٹیفکیشنز ہائیکورٹ کے متعلقہ رولز کے مطابق نہیں ہیں۔


عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کب کن حالات میں کس بنیاد پر یہ فیصلہ ہوا کہ جیل ٹرائل ہو گا، چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پانچ گواہ اس وقت بھی جیل میں بیانات ریکارڈ کرانے کے لئے موجود ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی کابینہ نے دو دن پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی۔ کیا وجوہات تھیں کہ وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی؟

عدالت نے استفسار کیا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منظوری سے پہلے ہونے والی عدالتی کارروائی کاا سٹیٹس کیا ہو گا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق اے ٹی سی جج کی تعیناتی ایگزیکٹو نے شروع کی، ریکارڈ کے مطابق اے ٹی سی جج کی تعیناتی بھی ایگزیکٹو نے کی، چیف جسٹس سے رائے لی گئی لیکن یہ پراسس ایگزیکٹو نے شروع کیا انہوں نے مکمل کیا۔


جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  اٹارنی جنرل صاحب شاید میں زیادہ بول رہا ہوں ، ایک جج کو زیادہ بات نہیں کرنی چاہئے، ویک اینڈ پر مجھے اس کیس کے بارے قانون پڑھنے کا موقع ملا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہمارے ریڈر آپ کو این جے پی ایم سی کا فیصلہ فراہم کریں گے۔ سائفر کیس ٹرائل کرنے والے جج کی تعیناتی ایگزیکٹو کی طرف سے کی گئی، ہمارے چیف جسٹس سے مشاورت کی گئی لیکن تعیناتی ایگزیکٹو نے کی۔ اب جو ٹرائل جیل میں ہورہا ہے وہ ہش ہش نہیں ہونا چاہئے۔


اسلام آباد ہائیکورٹ نے 16 نومبر تک سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم دیتے ہوئے اسٹے آرڈر جاری کر دیا، اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کیس کو کل رکھ لیں حکم امتناعی نہ دیں۔عدالت نے اسٹے آرڈر نہ جاری کرنے کی اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد کر دی اور جیل ٹرائل کرنے سے متعلق تمام ریکارڈ جمعرات کو طلب کر لئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔