نواز شریف کی رہائی عدالتی نہیں بلکہ فوج اور عمران سے ڈیل کا نتیجہ؟
تمام پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد صاف محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کی رہائی کا فیصلہ عدالتی نہیں بلکہ ایک ڈیل کا حصہ ہے۔
سال 2003 کی بات ہے مجھے حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سفر کے دوران جب میں مدینہ سے مکہ واپس آیا تو تین بجے کا وقت رہا ہوگا میں ہوٹل کے کمرے میں اپنا سامان رکھ کر سیدھے حرم شریف کے سب سے اوپر والے حصے پر چلا گیا تاکہ کم بھیڑ میں قران کی تلاوت کر سکوں اور اوپر ہی طواف کر سکوں ۔ قران کی تلاوت کر رہا تھا تو میری نظر طواف کر رہے ایک شخص پر پڑی جس کے ساتھ ایک شاہی گارڈ تھا۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کا سابق وزیر اعظم نواز شریف تھا ۔ طبعیت میں عجیب بے چینی پیدا ہوئی اور نواز شریف کے طواف کا جب دوسرا چکر تھا تو میں نے بھی اپنا طواف شروع کر دیا ۔ گارڈ لوگوں کو ان کے قریب آنے سو روک رہا تھا پھر بھی لوگ مصافحہ کر رہے تھے ۔ میں نے مصافحہ تو نہیں کیا لیکن صحافی ہونے کے ناطے کچھ سوال ضرور کرنا چاہ رہا تھا مگر گارڈ اور نواز شریف کے رویہ نے میری خواہش کو پورا نہیں ہونے دیا۔ میں نے کیونکہ بعد میں طواف شروع کیا تھا اس لئے نواز شریف میرے آخری چکر سے پہلے ہی حرم شریف سے چلے گئے۔ اس کے بعد شاہ راہ مسفلہ پر واقع میں اس ہوٹل پر چلا گیا جہاں میں کھانا کھاتا تھا ۔ اس ہوٹل کے مالک سے دوستی ہو گئی تھی اس لئے اس سے نواز شریف کا ذکر ہونا فطری تھا۔ ذکر میں اس نے بتایا کہ میاں صاحب شاہی خاندان کے مہمان ہی نہیں ایک گھر کے فرد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے شاہی خاندان کے ساتھ بہت ہی اچھے روابط ہیں۔ گفتگو کے دوران اس نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف نے پورے سال کے لئے دو سو افراد یومیہ کے حساب سے اس کو مفت کھانا کھلانے کے لئے پیسے دئے ہوئے ہیں ۔ اس نے مجھے چیلنج کیا کہ میاں صاحب واپس پاکستان ضرور جائیں گے اور وزیر اعظم بھی بنیں گے کیونکہ ان کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ جیسے تعلقات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے جنرل مشرف ان کو ملک سے باہر زیادہ دن نہیں روک سکتے اور سال 2008میں ایسا ہوا بھی ۔ بہر حال اس ایک دن کے واقعہ نے مجھ پر دو باتیں عیاں کر دیں کہ نواز شریف مذہبی بھی ہیں اور سعودی شاہی خاندان کے قریبی بھی ہیں ۔
سب کے دماغ میں یہ بات ضرور گشت کر رہی ہوگی کہ میں یہ آپ بیتی کیوں سنا رہا ہوں ۔ دراصل جب کل اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا کہ میاں صاحب اور انکی بیٹی و داماد کی سزائیں معطل کر دی گئی ہیں اور ان کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے تو میرے ذہن میں نواز شریف اور سعودی عرب کے رشتے آنکھوں کے آگے گشت کرنے لگے ۔جس شخص کو 13 جولائی 2018 کو جیل میں بند کیا ہوا اور اس کو انتخابات لڑنے اور انتخابی مہم میں بھی حصہ نہیں لینے دیا ہوا تو ان دو ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ اس کی سزائیں معطل کر دی گئیں اور اس کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ویسے تو پاکستان کے تعلق سے ایک بات بہت عام ہے کہ اس کو تین اے (A) چلاتے ہیں ایک ALLAH, AMERICA and ARMY. لیکن ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان کو چلانے میں سعودی عرب کا بھی اہم کردار ہے ۔ اس کا بھی سب کو علم ہے کہ 20 نومبر 2008 کو جب نواز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت ملی تھی اس میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کا کتنا اہم کردار تھا۔ یہ میں اس لئے تحریر کر رہا ہوں کہ نواز شریف کی اچانک رہائی کی کیا ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس وقت عدالت کا یہ حیران کرنے والا اور ایک طرح سے نہ سمجھنے والا فیصلہ آیا ہے اس وقت ملک کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے دورہ پر گئے ہوئے ہیں اور پاکستان کو اقتصادی بحران کا سامنا ہے ساتھ میں اس کے رشتے امریکہ سے پہلے جیسے نہیں ہیں یا یوں کہئے کہ امریکہ کے پاس اب پیسے نہیں ہیں کہ وہ دہشت گردی کی لڑائی کے نام پر پاکستان کا مالی بوجھ اٹھاتا رہے یہ سب مشرف کے دور میں خوب ہو چکا ہے ۔دوسری جانب عمران خان نے عوام کو بہت بڑے بڑے خواب دکھائے ہیں اور ان کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے پیسہ چاہئے جس میں سعودی عرب کی مدد چاہئے ۔ مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف کی رہائی ایک ڈیل کا حصہ ہے جس میں تین فریق شامل ہیں ۔ ان تین فریقین میں عمران خان ، پاکستانی فوج اور سعودی عرب شامل ہیں اور پیچھے سے مسلم لیگ (ن) کی ضرورت شامل ہے ۔ اس ڈیل کے تحت سعودی عرب پاکستان کی مالی مدد کرے گا لیکن پاکستانی فوج اور عمران خان کو سعودی عرب کے دوست نواز شریف کو رہا کرنا پڑے گا ساتھ میں نواز شریف کو صرف حزب اختلاف کے قائد کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہوگی اور اس کے دائرےطے کئے گئے ہوں گے ۔
اس ممکنہ ڈیل سے عمران خان کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے ضروری پیسہ مل جائے گا اور اس کو امریکہ سے ڈکٹیشن (املا) نہیں لینا پڑے گا ساتھ میں امریکہ اپنی شرائط سعودی عرب کے ذریعہ عمران سے منوا تا رہے گا۔ پاکستانی فوج کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ان الزامات سے بری ہو جائے گی کہ عمران کو اقتدار میں لانے کا سارا کھیل فوج کا تھا ۔ عمران کو مستقل ڈرانے کے لئے مسلم لیگ کا انتخابی نشان شیر سامنے سے دہاڑتا رہے گا جس کے خوف سے عمران فوج کی گود میں بیٹھے رہیں گے اور فوج پیچھے سے حکومت چلاتی رہے گی۔ مسلم لیگ( ن ) یا نواز شریف کو یہ فائدہ ہوگا کہ جیل میں پڑے پڑے پارٹی اور قائد دونوں تاریخ نہ بن جائیں اس لئے اس ڈیل کے ذریعہ عوام میں اور سیاست میں زندہ رہنے کا ایک موقع ملے گا۔
ویسے تو ہر ملک کی سیاست میں جو میڈیا کے شیشہ سے ہمیں دکھائی دیتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے اور اس کے اصل کھلاڑی اور میدان دور کہیں چھپے ہوتے ہیں اور ہمیں صرف کٹھ پتلیاں نظر آتی وہ ہاتھ نظر نہیں آتے جن کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کی ڈور ہوتی ہے ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Sep 2018, 10:18 AM