عمران خان کو فوج کا ڈر!
عمران کو ڈر لگتا ہے پاکستانی فوج انہیں مروا نہ دے۔ اس خدشہ کا اظہار انہوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے یوم تاسیس کے موقع پر کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی منظر نامہ ہمیشہ ہی بڑا دلچسپ رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں فوج سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ عوام پر حکمرانی کو ترجیح دیتی ہے۔ ہندوستان سے شکست کھانے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے نصف صدی بعد بھی پاکستان میں کوئی بھی پاکستانی فوج کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی بھی الیکشن ہو اس میں پاکستانی فوج کا کردار رہتا ہے۔ اس سچائی کا اعتراف ہر دور کی حزب اختلاف یا اپوزیشن پارٹی نے کیا ہے جبکہ برسراقتدار یا رولنگ پارٹی نے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ صرف اس مرتبہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں، پھر وہ بینظیر بھٹو ہوں، نواز شریف یا گزشتہ سال اقتدار سے محروم کئے جانے والے عمران خان۔
پاکستان اپنے قیام سے ہی سیاسی اتھل پتھل کا شکار رہا ہے۔ غیر مستحکم حالات کو بہانہ بنا کر پاکستانی فوج نے سیاسی معاملات میں مداخلت کا جواز پیدا کیا اور یوں اسے اقتدار کا چسکہ لگ گیا۔ یوں تو پاکستان میں فوجی مداخلت کی تاریخ کافی طویل ہے لیکن ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو بینظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کی اور جلاوطنی ختم کر پاکستان واپس آئیں، اپنی جان کو در پیش خطرات کے باوجود الیکشن مہم زور شور سے کی اور اسی کے دوران حملہ میں ہلاک ہوئیں. جنرل مشرف نے پاکستانی دہشت گردوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آ گئی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری نے نواز شریف کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کو فارغ کر دیا اور خود پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے۔
نواز شریف کا معاملہ الگ ہے۔ انہیں پاکستانی فوج یا یوں کہیں جنرل ضیاالحق کا بلیو آئیڈ بوائے ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ لیکن جب انہیں بدعنوانی کے الزامات کے سبب گدی سے اتارا گیا تو ان کا شکوہ تھا ’مجھے کیوں نکالا‘ ۔ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور بالخصوص ان کی صاحبزادی مریم نواز نے پاکستانی فوج کے خلاف ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا میں محاذ کھول دیا، اور بدعنوانی کے مقدمات زیر سماعت ہونے کے باوجود نواز شریف کو طبی بنیاد پر ملک چھوڑ کر جانے دیا گیا۔ اب وہ لندن میں مقیم ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو ریموٹ کنٹرول کر رہے ہیں۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جنرل ضیا الحق کو کرکٹ کا شوق تھا اور عمران خان ان کے پسندیدہ کھلاڑی تھے اور ان کے کہنے پر ہی کرکٹ کو الوداع کہنے کے بعد کھیل کی دنیا میں واپس آئے اور 1992 میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی کپ جتوایا۔ سماجی و فلاحی کاموں میں حصہ لیا ، 1996 میں سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف قائم کی اور 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ حسب روایت ان کی حریف جماعتوں اور سیاسی شخصیات بالشمول نواز شریف ، آصف زرداری و دیگر نے کہا کہ عمران خان پاکستانی فوج کی پشت پناہی کے سبب برسراقتدار آئے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین اختلافات کی خبریں آنے لگیں اور بالآخر 10 اپریل 2022 کو اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکے اور انہیں استفیٰ دینا پڑا۔ وہ اقتدار سے دست بردار ہو گئے لیکن فوراً انتخابات کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر اتر آئے، عوامی اجتماعات منعقد کرتے رہے اور آج وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بن گئے ہیں۔
اب اسے المیہ ہی کہیں گے کہ عوامی مقبولیت کے باوجود پاکستان کا سیاسی رہنما خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ عمران کو ڈر لگتا ہے پاکستانی فوج انہیں مروا نہ دے۔ اس خدشہ کا اظہار انہوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے یوم تاسیس کے موقع پر کیا اور کہا کہ ہم نے کبھی فوج کے خلاف سیاست نہیں کی۔ یہ جھوٹ ہے کہ 2018 کا الیکشن فوج نے جتوایا۔ ہم نے کبھی ان کی مدد نہیں مانگی۔ میں نیوٹرل امپائر لانے والا کپتان تھا۔ ہم فوج کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ میری پارٹی سے دشمنی، مجھ پر قاتلانہ حملہ اس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہی لوگ جنھوں نے ملک کی حفاظت کرنی ہے وہ مجھے مروانے کی کوشش کریں۔ 27 سال کی جدوجہد میں یہ سب سے مشکل مرحلہ رہا ہے۔۔۔ آپ چوروں سے لڑتے ہو مگر ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے کون لڑ سکتا ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ جو بھی چاہتا ہے کہ پاکستان ایک عظیم قوم بنے، وہ چاہے گا کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ انھوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے کے لیے چوروں کو مسلط کیا۔ اس ڈر سے کہ کہیں عمران خان نہ آ جائے موجودہ حکومت الیکشن نہیں ہونے دے رہی۔ یہ آئین توڑنے کو تیار ہےاور چیف جسٹس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستانی فوج ایک قومی فوج ہے۔ ہمارے لیے تمام سیاستدان، تمام جماعتیں قابل احترام ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور فوج دونوں یہ نہیں چاہیں گے کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت سے جڑے۔ ’سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ ہماری سوچ کو تقویت بخشیں۔ فوج اور سیاستدانوں کو غیر سیاسی رشتہ ہوتا ہے، اسے سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہو گا۔‘ کیا عمران خان سکیورٹی رسک بن چکے ہیں اور کیا عید کے بعد پاکستان میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگنے جا رہا ہے؟ اس سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فوجی حکام کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ شہباز شریف حکومت چاہتی ہے کہ پارلیمان اپنی مدت پوری کرے اور انتخابات مقررہ وقت یعنی اکتوبر2023 میں ہوں۔ اس سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لئے پاکستان سپریم کورٹ نےملک میں ایک ساتھ الیکشن کی تاریخ پر اتفاق کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو 27 اپریل یعنی آج تک کی مہلت دی تھی۔ 19 اپریل کی سماعت میں سیاسی قائدین نے عدالت کو بتایا تھا کہ عید الفطر کے باعث 26 اپریل کو اس حوالے سے مشاورت ہو گی جس کی رپورٹ 27 اپریل کو عدالت میں پیش کر دی جائےگی۔ لیکن اس مہلت کے دوران کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر مذاکرات کو لے کر غیر سنجیدگی کا الزام لگاتے رہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انتخابات کو لے کر ثالثی یا پنچایت لگانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ۔ آج سماعت مکمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت اب نہ تو کوئی ہدایت جاری کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن بلکہ تحریری فیصلہ جاری کرے گی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مذاکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور 14 مئی کو الیکشن کروانے والا عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
یوں پاکستان کے سیاسی بازیگر اور فوجی جنرل اپنے اپنے داؤں چلنے میں مشغول ہیں قطع نظر اس کے کہ کس طرح تباہ ہوتی معیشت، غربت، بھوک اور مہنگائی کی ماری عوام کو راحت فراہم کی جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔