عمران کو فوج اور امریکہ کی ناراضگی مہنگی پڑی

عمران خان اور فوج کے درمیان ڈرامہ چار ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے انجم کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی سربراہی کے لیے مقرر کیا تھا۔

عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

ویسے تو کئی معاملوں کو لے کر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے مابین اختلافات تھے لیکن بل گیٹس کے ساتھ ایک پر اسرار تصویر سامنے آنے کے بعد ان دونوں کے بیچ موجود اختلافات مزید خراب ہوگئے۔ اس تصویر میں تیرہ کرسیوں میں سے ایک کرسی خالی دکھائی دے رہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس کرسی پر بیٹھے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر کو فوٹو شاپ کے ذریعہ ہٹا دیا گیا ہے۔ واضح رہے جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ بل گیٹس کے ساتھ ظہرانے کی تصویر جاری کی، تو سوشل میڈیا صارفین نے اس تصویر میں کچھ عجیب سا دیکھا کہ گول میز میں 13 نشستیں لگی ہوئی ہیں لیکن صرف ایک درجن آدمی ہی نظر آرہے ہیں۔

عمران خان اور فوج کے درمیان ڈرامہ چار ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے انجم کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی سربراہی کے لیے مقرر کیا تھا۔ عمران خان نے انجم کی تقرری میں تاخیر کی، کیونکہ وہ عوامی سطح پر جنرل فیض حمید کی حمایت کرتے تھے، جنہیں بڑے پیمانے پر عمران خان کا اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے تعطل کے بعد آرمی چیف انجم کا نام فائنل کرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ عمران خان کو اس فوج کا بہت قریبی تسلیم کیا جاتا تھا، جس فوج نے پاکستان میں آزادی کے بعد سے زیادہ تر وقت اقتدار پر اپنا قبضہ رکھا ہے۔ لیکن اب کہا یہ جا رہا ہے کہ فوج کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔


واضح رہے پاکستانی قانون کے مطابق وزیر اعظم فوج کی سفارش پر آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کرتا ہے۔ فیض حمید پر الزام تھا کہ انہوں نے ہی تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو 2017 میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرفی کا منصوبہ بنایا تھا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری صرف اختلافات کی وجہ نہیں تھی بلکہ کئی وجوہات تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ عمران نے ایک عوامی ریلی میں آرمی چیف کے ساتھ نجی گفتگو کا ذکر کیا تھا اور فوج کو یہ بات بہت ناگوار گزری تھی، کیونکہ فوج خود کو یہ دکھانا نہیں چاہتی کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ عوامی سطح پر فوج کا نام لینا عمران خان کی بڑی غلطی تھی۔

فوج کے لیے، جسے مقامی طور پر "اسٹیبلشمنٹ" کہا جاتا ہے اس کی نظر میں عمران خان استحکام کی نمائندگی کرتے تھے۔ خارجہ پالیسی اور سلامتی کے معاملات سے لے کر معاشی فیصلوں تک وزیر اعظم کی انتظامیہ کے ہر عنصر میں اعلیٰ فوجی جرنیلوں کی رائے لی جاتی تھی۔ باجوہ اور دیگر جرنیلوں نے اعلیٰ کاروباری شخصیات اور پالیسی سازوں سے باقاعدگی سے نجی ملاقاتیں کی ہیں۔


دراصل عمران خان اور فوج کے مابین تعلقات اس وقت بگڑنا شروع ہو گئے جس وقت عمران نے اہم فیصلوں میں فوج کی شمولیت پر ناگواری کا اظہار کرنا شروع کیا اور امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ واضح رہے امریکہ جو پاکستان کو سب سے زیادہ ہتھیار بیچتا تھا لیکن اس شعبہ میں چین کا دخل بڑھ گیا ہے اور امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان اس معاملہ میں زیادہ متوازن پالیسی پر عمل کرے۔

جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے چند دن بعد ہی تعلقات خراب ہو گئے تھے جب پاکستان کی ایک عدالت نے 2002 میں وال اسٹریٹ جرنل کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کے سر قلم کرنے کے جرم میں سزا پانے والے چار افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات مزید خراب ہو گئے، جب عمران خان نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ نے "غلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں۔"


بائیڈن نے گزشتہ سال عمران خان کو دسمبر میں اپنی جمہوریت کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی، لیکن پاکستان کے رہنما نے چین کی وجہ سے درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ عمران خان نے روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا، روسی رہنما کے یوکرین پر حملہ کرنے کے چند گھنٹے بعد ولادیمیر پوتن کے ساتھ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی اعلیٰ سطحی میٹنگ کی۔ کل ملاکر عمران خان کے اقتدار کی الٹی گنتی شروع ہونے کے پیچھے فوج اور امریکہ کے ساتھ بگڑتے ان کے تعلقات ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔