پاکستان میں کالعدم تنظیموں پر کارروائی، 182 مدارس پر حکومتی قبضہ، 121 گرفتار

حکومت پاکستان نے سینکڑوں کی تعداد میں کالعدم تنظیموں کے مدارس، مساجد اور طبی سہولیات کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ کالعدم جیشِ محمد اور جماعت الدعوہ سمیت کئی تنظیموں کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستانی وزراتِ داخلہ کے مطابق ایسے مدارس کی تعداد 182 ہے جن کو حکومت نے اپنے قبضے میں لیا ہے جبکہ گرفتار یا حراست میں لیے جانے والے افراد کی تعداد 121 ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جار ہے ہیں۔

اس کے علاوہ 34 اسکول و کالج، ایک 163 ڈسپنسریاں، 184 ایمبولینسیں، 5 اسپتال اور 8 دفاتربھی حکومتی تحویل میں لیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایک حکومتی منتظم ہے، جو ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ کئی شہروں میں ڈپٹی کمشنر منتظم کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مزید مدارس کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے گا۔

لاہور، مریدکے، راولپنڈی اور اسلام آباد میں ذرائع کے مطابق زیادہ تر مدارس اور مساجد جماعت الدعوہ کی ہیں جبکہ فلاحی اداروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی تنظیم سے یا اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن سے ہے۔ اسلام آباد میں جماعت الدعوہ کے مرکز کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

کالعدم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومتی کنڑول میں لیے جانے والے اداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور حکومت جان بوجھ کر انہیں کم دکھا رہی ہے۔

جماعت الدعوہ کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے 300 سے زائد اسکولوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 70 کے قریب مدارس ہیں، جن کو حکومتی تحویل میں لے کر وہاں زیرِ تعلیم بچوں کو نکال دیا گیا ہے۔ کئی مساجد میں حکومت نے پیش امام اور موذن بھی تبدیل کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ فلاح انسانیت کے تحت چلنے والے اسپتال اور فلاحی ڈسپنسریوں کا کنڑول بھی حکومت نے سنبھال لیا ہے۔ کارکنوں کے گھروں پر چھاپے بھی مارے جارہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے جارہے ہیں۔‘‘

دوسری طرف حکومت کے مختلف حلقے مختلف اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ ایسے مدارس کی تعداد 182 بتاتی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت کے وزیرِ اطلاعات صمام بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی تعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم نے پنجاب میں صرف ان مدارس اور مساجد کے خلاف کارروائی کی ہے، جن کے حوالے سے ہمارے پاس رپورٹ ہیں۔ 182 بہت بڑی تعداد ہے۔ میرے خیال میں یہ نمبر درست نہیں۔ جو لوگ آئین کے دائرے میں کام کر رہے ہیں، حکومت انہیں کچھ نہیں کہہ رہی۔‘‘

جیشِ محمد کے بہاولپور مرکز کو پہلے ہیں حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے، جبکہ کراچی میں احسن آباد اور سخی حسن کے علاقے میں قائم مساجد سے بھی اس گروپ کا قبضہ ختم کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں بھی اس کی ایک مسجد کو قبضے میں لیا گیا ہے۔

کالعدم تنظیم انصار الامہ، جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل ماضی میں اسامہ بن لادن کے ساتھی رہے ہیں اور حرکت الانصار اورحرکت المجاہدین میں بھی انہوں نے کام کیا ہے، اسلام آباد میں قائم مدرسہ و مسجد کو حکومتی تحویل میں لے کر وہاں پیشِ امام کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس تنظیم کے درجنوں دوسرے مدارس جو ملک کے مختلف حصوں میں واقع ہیں، انہیں ابھی چھیڑا نہیں گیا ہے۔

واضح رہے کہ پورے ملک میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد تقریبا 35300 ہے، جس میں 35 لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مدارس کی تعداد حکومتی اندازے سے بہت زیادہ ہے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں رجسڑڈ اور غیر رجسڑڈ تعداد ملا کر کوئی 80 ہزار کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبہ فکر کی ہے، جو 40 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ دوسرے نمبر پر بریلوی ، تیسرے نمبر پر اہلِ تشیع اور چوتھے پر اہلحدیث مکتبہء فکر کے مدارس ہیں۔

پنجاب پولس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ کریک ڈاؤن میں سب سے زیادہ مدارس اور ادارے جماعت الدعوہ کے ہیں، جو حکومتی کنڑول میں لیے گئے ہیں ۔زیادہ تر حکومتی تحویل میں لیے جانے والے ادارے پنجاب میں قائم تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Mar 2019, 6:10 PM