لندن میں بھی دھوم دھام سے منایا گیا یومِ سر سید

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

قومی آواز بیورو

لندن: سر سید فاؤنڈیشن لندن نے اے ایم یو الومنائی ایسو سی ایشن (انگلینڈ) کے اشتراک سے گزشتہ 20 اکتوبر کو سر سید کی دو صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا جس میں اے ایم یو سے تعلق رکھنے والے کئی قدیم طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ یہ طلبا و طالبات لندن اور انگلینڈ کے دیگر شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جو سر سید کی تحریک کو مشعل راہ تصور کرتے ہیں۔ اس تقریب میں دو ایسے اسکالرس نے بھی شرکت کی جو علی گڑھ تحریک کو فروغ دینے اور اس کے اصل مقاصد کو بروئے کار لانے میں سرگرم عمل ہیں، ساتھ ہی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں اس کی اہمیت و افادیت کو نشر کرنے کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان میں ایک پروفیسر ڈیوڈ لیلیویلڈ ہیں جو اپنی کتاب ‘Aligarh’s First Generation’ سے مشہور ہوئے اور انھیں بین الاقوامی کیٹیگری میں ’سر سید ایکسیلنس ایوارڈ‘ سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ دوسری شخصیت ڈاکٹر رخشندہ جلیل ہیں جن کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور اُردو میں پروگریسیو رائٹرس مومنٹ کے تعلق سے کام کر رہی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ڈاکٹر رشید جہاں کی بایوگرافی بھی تصنیف دی ہے۔

اس عظیم الشان تقریب کا افتتاح نہرو سنٹر کے ڈائریکٹر سرینواس گوترو کے پرخلوص استقبال سے ہوا۔ نہرو سنٹر کے دلکش گراؤنڈ فلور ہال میں سر سید کی زندگی اور ان کے کارناموں پر مبنی ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جسے معزز مہمانان کو دکھایا گیا۔ اس کے بعد سر سید کے شیدائی آڈیٹوریم کی طرف بڑھے جہاں دو صد سالہ تقریب کے روح رواں اور سر سید فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر ہلال فرید نے اس تقریب کے پس پردہ مقاصد سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ بعد ازاں محترمہ اختر صدیقی (علیگ برادری میں اختر آپا کے نام سے مشہور) نے تلاوت کلام پاک پیش کیا اور پھر ڈاکٹڑ شہناز سوری (صدر، اے ایم یو اے اے، یو کے) نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ اس موقع پر پروفیسر لیلیویلڈ اور مسٹر گوترو کے ذریعہ سر سید کے ایک پورٹریٹ کی رسم رونمائی کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر رخشندہ جلیل اور محترمہ عبیدہ خان کے دست مبارک سے انتہائی خوبصورت انداز میں تیار کردہ سووینیر کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ ساتھ ہی علیگ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی اور دو صد سالہ تقریب کی کنوینر محترمہ خورشید حسن نے اے ایم یو اے (یو کے) کی جانب سے اپنی تقریر پیش کی۔ اس تقریر میں انھوں نے انگلینڈ میں موجود علی گڑھ الومنائی کے بڑے نیٹورک اور ان کے ذریعہ کیے جا رہے کچھ اہم ترین کام کا تذکرہ کیا، ساتھ ہی دو صد سالہ تقریب کے انعقاد میں ان کی کاوشوں سے بھی لوگوں کو متعارف کرایا۔

سووینیر کا اجراء کرتی ہوئیں محترمہ عبیدہ خان اور محترمہ رخشندہ جلیل
سووینیر کا اجراء کرتی ہوئیں محترمہ عبیدہ خان اور محترمہ رخشندہ جلیل

تقریب کے رسمی اور ابتدائی حصہ کے بعد پروفیسر لیلیویلڈ کے ذریعہ پاور پریزینٹیشن پیش کیا جس میں دلکش انداز میں سرسید کے پرنٹنگ پریس کا تذکرہ کیا گیا۔ یہ کئی تصویروں پر مشتمل پاور پریزینٹیشن تھا جو انھوں نے اپنی تحقیق کے دوران ’تہذیب الاخلاق‘ کے پرانے شماروں اور سر سید کے تحریر کردہ متعدد مضامین سے حاصل کیے تھے۔ اس پریزینٹیشن کے بعد سیر حاصل مباحثہ کا دور چلا جس کی نظامت ڈاکٹر ہلال فرید نے کی اور اس میں صبوحی انصاری، شاہین وسیم، سمی علی، نازش زیدی اور ندا سوری وغیرہ شامل تھیں۔ اس مباحثہ کا موضوع تھا ’سر سید اور میں‘۔ اس سیشن میں اے ایم یو سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین شامل ہوئیں جو ضعیف بھی تھیں اور جوان بھی۔

اس کے بعد تصویری مذاکرہ کا سیشن منعقد ہوا جس میں انگلینڈ کے اسکالر ڈاکٹر کسم پنت جوشی نے ’سر سید تحریک، علی گڑھ کی خواتین اور ہندوستانی سنیما‘اور ڈاکٹر جیفری نیش نے ’سر سید احمد خان اور ہندوستان میں خواتین کا کردار‘ کے عنوان سے بذریعہ تصویر اپنی باتیں لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اس سیشن کی نظامت پروفیسر لیلیویلڈ نے کی۔ اس کے بعد کا سیشن مقالہ پر مشتمل تھا جس میں ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے ’سر سید احمد خان اور جدید تعلیم نسواں‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں روایتی سوچ سے الگ شیخ عبداللہ کے ذریعہ لڑکیوں کے لیے بنائے گئے عام اسکول میں پیش آنے والے مسائل سے لوگوں کو روشناس کرایا جو کہ سر سید کے انتقال کے آٹھ سال بعد قائم ہوا تھا۔ انھوں نے تعلیم نسواں کے طریقہ کار پر سر سید کی سخت مخالفت کا تذکرہ بھی کیا اور سر سید کی تحریروں، تجزیوں، تقریروں وغیرہ کے حوالہ جات بھی پیش کیے۔ اس کے بعد پروفیسر لیلیویلڈ نے ’یہ کہاں کی دوستی ہے‘ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس میں انھوں نے سر سید کی دوستی سے متعلق آئیڈیا اور ’برادری‘ سے متعلق بتایا جو نوجوان لڑکوں کے لیے اپنی طرح کا ایک الگ بورڈنگ اسکول تھا اور اس کو سر سید نے فروغ دیا تھا۔ اس سیشن کی صدارت معروف مورخ پروفیسر فرانسس رابنسن نے کی۔ اس سیشن کے بعد ایک پینل ڈسکشن ’سر سید تحریک اور اکیسویں صدی میں درپیش چیلنجز‘ کے عنوان سے ہوا جس میں فرانسس رابنسن، ڈیوڈ لیلیویلڈ، جیفری نیش اور رخشندہ جلیل شامل ہوئیں۔ اس پینل ڈسکشن کی نظامت بھی ڈاکٹر ہلال فرید نے کی جو صرف اس تقریب کے روح رواں نہیں تھے بلکہ انگلینڈ میں موجود علیگ برادری کے درمیان مضبوط شناخت رکھتے ہیں۔

سامعین سے خطاب کرتی ہوئی معروف مصنفہ رخشندہ جلیل
سامعین سے خطاب کرتی ہوئی معروف مصنفہ رخشندہ جلیل

اکیڈمک سیشن ختم ہونے کے بعد کلچرل پروگرام کی باری تھی جو دو سیکشن پر مشتمل تھا۔ پہلے سیکشن میں ممتا گپتا (سابق بی بی سی بروڈکاسٹر اور غزل گلوکار)، احسن زیدی، صبوحی انصاری، عرفان مصطفیٰ اور ہلال فرید نے کلامِ اساتذہ پڑھ کر لوگوں کو سنایا۔ دوسرے سیکشن میں ہندوستانی اور یوروپی فنکاروں کے ذریعہ موسیقی اور رقص پر مبنی پروگرام پیش کیا گیا جس کی کوریوگرافی ارونیما کمار نے کی۔ اس شام کا حاصل فرنچ فنکار ہیلن لیسیج کی اُردو اور فارسی زبان میں پیش کی گئی قرأت تھی۔ انھوں نے گلزار کے ’اردو زبان‘ اور مہدی اخوان کے ’سحر نو‘ کو دلکش انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اس کے بعد بھاگیہ لکشمی، سونیا مکھرجی، پوراکھ، سیدا تانی اور ارونیما کمار کی اردو نظموں کو موسیقی اور رقص کے ساتھ انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔

اگلے دن یعنی 21 اکتوبر کو مشاعرہ کا انعقاد ہوا اور ویمبلے کے کلے اووین ریستوران میں عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت معروف مصنف اور بی بی سی اردو کے سابق سربراہ پروفیسر رضا علی عابدی نے کی جب کہ بطور مہمان خصوصی اُردو مرکز لندن کے صدر ڈاکٹر جاوید شیخ نے شرکت کی۔ مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر احسن ظفر زیدی نے بحسن و خوبی انجام دی۔ مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعراء کے اسمائے گرامی ہیں ساجد محمود رانا، عامر امیر، رفعت شمیم، ہلال فرید، نجمہ عثمان، پروین لشاری، مصطفیٰ شہاب اور چمن لال چمن۔

سرسید کی دو صد سالہ تقریب نے علی گڑھ سے دور لندن میں بھی علی گڑھ کے رَنگ کو زندہ کر دیا۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ مجاز نے کہا تھا ’جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پہ برسے گا، برسے گا، برسے گا...۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔