کیا روس نے ٹرمپ کو بچانے کی کوشش کی تھی؟کیپیٹل ہل معاملہ میں روسی خاتون گرفتار
گرفتار کئے گئے مظاہرین میں سے ایک خاتون نے واشنگٹن ڈی سی ہائی کورٹ سے ایک روسی زبان کی انٹرپریٹر کی اپیل کی تھی کیونکہ اس نے خود کو روس کا شہری بتایا ہے۔
امریکہ میں اور سابق سوویت یونین جس کا بڑا حصہ اب روس ہے کے درمیان ایک لمبے وقت تک سرد جنگ جاری رہی اور دونوں کو ایک دوسرے کا کٹر حریف مانا جاتا تھا ۔ سوویت یونین ضرور ختم ہو گیا لیکن امریکہ اور روس کی مقابلہ آرائی ابھی بھی جاری ہے۔ سال 2016 کےامریکی صدارتی انتخابات میں روس پر الزام لگا تھا کہ اس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ اب پھر ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ حال ہی میں کیپیٹل ہل میں ہوئےتشدد کے بعد ایک خاتون اور اس کی بیٹی کو گرفتار کیا تھا جن کی شناخت روسی بتائی جا رہی ہے۔
امریکی پارلیمنٹ 'کیپیٹل بلڈنگ' میں بدھ کوہوئے تشدد کے الزام میں حراست میں لی گئی ایک روسی خاتون کی شناخت مولدیوین نژاد پورٹ لینڈ کی رہنے والی 54 سالہ ایوجیریا مالیمن کے طور پر ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ اس کی 28 سالہ بیٹی کرسٹینا کو بھی حراست میں بھی لیا گیا تھا۔
امریکی نیوز ویب سائٹ بج فیڈ کے مطابق گرفتار کئے گئے مظاہرین میں سے ایک خاتون نے واشنگٹن ڈی سی ہائی کورٹ سے ایک روسی زبان کی انٹرپریٹر کی اپیل کی تھی کیونکہ اس نے خود کو روس کا شہری بتایا ہے۔
کولمبیا ضلع کے میٹرو پولیٹن پولیس ڈیارٹمنٹ (ایم پی ڈی سی) نے اسپوٹنک کو تصدیق کی ہے کہ حراست میں لئے گئے لوگوں میں یہ خاتون شامل ہے۔ اسپوٹنک کو دی گئی گرفتاریوں کی فہرست میں مالیمن پر کرفیو کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
مالیمن روسی زبان بولتی ہے اور اس کے اور اس کے کنبے کے مالدوو سے تعلقات ہیں ، لیکن ان کے بے بنیاد دعووں کی حمایت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ اور اس کی بیٹی روسی شہری ہیں۔ مالیمن اور پانچ دیگر افراد کو جمعہ کو کیپیٹل ہل کے نزدیک کرفیو میں روکا گیا تھا اور مسلسل انتباہ کے باوجود یہاں سے جانے سے انکار کرنے پر انھیں حراست میں لیا گیا تھا ، حالانکہ مالیمن اور اس کی بیٹی کو واشنگٹن ڈی سی میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرنے کے بعد دونوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
ان خبروں کےبعد ایک مرتبہ پھر روس کی طرف شک کی انگلی اٹھائی جانے لگی ہے اور عام لوگوں کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ کہیں کیپیٹل ہل میں ہونےوالاتشدد کسی عالمی سازش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔