حماس حامیوں پر جرمن پولیس نے کسا شکنجہ، کئی مقامات پر چھاپہ ماری

جرمن حکومت میں داخلی امور کی وزیر نینسی فیسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم کٹر اسلام پسندوں کے خلاف اپنی لگاتار کارروائی جاری رکھ رہے ہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>حماس حامیوں کی فائل تصویر، آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

حماس حامیوں کی فائل تصویر، آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ایک طرف حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جاری لڑائی کو نرم کرنے کے مقصد سے جنگ بندی کی کوششیں ہو رہی ہیں، اور دوسری طرف جرمنی میں حماس حامیوں کے خلاف سخت اقدام کیے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ حماس کی حمایت میں کسی بھی سرگرمی پر رسمی پابندی کے بعد جمعرات کی صبح سینکڑوں پولیس افسران نے جرمنی میں حماس کے اراکین اور حامیوں کی ملکیتوں کی تلاشی لی۔

قابل ذکر ہے کہ جرمن حکومت نے 2 نومبر کو حماس حامیوں پر پابندی نافذ کیا اور سیمیڈون نامی گروپ کو تحلیل کر دیا۔ موصولہ جانکاری میں بتایا گیا کہ یہ گروپ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے ذریعہ کیے گئے حملے کا برلن میں جشن منا رہا تھا۔ جرمنی کی گھریلو خفیہ سروس کا اندازہ ہے کہ ملک میں حماس کے تقریباً 450 اراکین ہیں۔ ان کی سرگرمیاں ہمدردی کا اظہار اور تشہیری سرگرمیوں سے لے کر بیرون ممالک میں تنظیم کو مضبوط کرنے کے لیے مالی فنڈنگ کی سرگرمیوں تک ہوتی ہے۔


جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فیسر کا اس پورے معاملے میں کہنا ہے کہ ’’ہم کٹر اسلام پسندوں کے خلاف اپنی لگاتار کارروائی جاری رکھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ حماس اور سیمیڈون پر پابندی عائد کر کے ہم نے واضح اشارہ دیا ہے کہ ہم اسرائیل کے خلاف حماس کی بربریت کو قطعاً برداشت نہیں کریں گے۔

جرمنی کی وزارت داخلہ نے تازہ چھاپہ ماری سے متعلق ایک بیان میں یہ کہا کہ ’’یہ چھاپے، جو بیشتر برلن میں ہوئے، پابندیوں کو نافذ کرنے اور گروپوں کی آگے کی جانچ کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔‘‘ بتایا جا رہا ہے کہ برلن اور لووَر سیکسونی، نارتھ رائن-ویسٹ فیلیا اور شلیسوئگ-ہولسٹین ریاستوں میں مجموعی طور پر 15 ملکیتوں کی دریافت کی گئی ہے۔ تنہا برلن میں 300 سے زیادہ پولیس افسران نے ثبوت اور ملکیتیں ضبط کرنے کے لیے 11 مقامات پر تلاشی لی۔ ان میں سے 7 کا تعلق حماس سے اور 4 کا تعلق سیمیڈون سے تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے بتایا کہ چھاپہ ماری خاص طور سے حماس حامیوں کے گھروں اور فلسطینی ایسو سی ایشن کے احاطوں میں ہوئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔