برطانیہ میں روسی سفارت کاروں پر کارروائی، روس کی دھمکی

برطانیہ کی کارروائی کو روس نے جارحانہ، ناقابل قبول، بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی ذمہ داری برطانوی رہنماؤں پر ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اقوام متحدہ/ماسکو: برطانیہ میں سابق روسی جاسوسی سرگئی اسکرپل کی موت کے بعد اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسا مئے نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ برطانیہ کی سرزمین پر اس نے کیمیائی ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے روس کے ایک سابق ایجنٹ کو مارنے کی کوشش کی۔ اس پر روس سے جواب طلب کیا گیا تھا لیکن روس نے جواب نہیں دیا۔ آخر کار برطانیہ نے 23 سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

روس کے سابق جاسوس سرگئی اسکرپل اور ان کی بیٹی یولیا 4 مارچ کو جنوبی انگلینڈ میں ایک شاپنگ سنٹر کے باہر بنچ پر بیہوشی کی حالت میں ملے تھے۔ دونوں فی الحال اسپتال میں ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک بنی ہوئی ہے۔

اپنے سفارتکاروں کی ملک بدری کے بعد روس آگ بگولہ ہو گیا ہے اور روس کا کہنا ہےکہ برطانیہ کی جانب سے روسی سفارت کاروں کو جاسوس قرار دینے اور ملک بدر کرنے کا جلد جواب دیا جائے گا۔ ادھر امریکہ نے سلامتی کونسل سے روس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم کے فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

اجلاس میں برطانوی سفیر نے الزام عائد کیا کہ اعصابی گیس کا حملہ ریاستی پشت پناہی میں کیا گیا۔ امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ روس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ الزامات مسترد کرتے ہوئے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ اشتعال انگیز حملہ الیکشن سے پہلے روس کی ساکھ متاثر کرنے کےلیے کیا گیا، برطانیہ کیمیائی مادہ روس کو فراہم کرے۔

دریں اثنا برطانیہ کی جانب سے سفارتکاروں کی برطرفی کی کارروائی پر روسی وزیر خارجہ کو برطانیہ کا دورہ کرنے کی دعوت واپس لینے کے حوالہ سے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے ’’مئے نے لاؤوروف کو برطانیہ کا دورہ کرنے کی دعوت واپس لے لی ہے۔ لیکن انھوں (لاؤورف) نے یہ دعوت قبول ہی نہیں کی تھی۔‘‘

روس نے برطانوی اقدام کی مذمت کی ہے۔ لندن میں واقع روسی سفارتخانے نے ایک بیان میں برطانیہ کے اعلان کو جارحانہ، ناقابل قبول، بلا جواز قرار دیا ہے۔ ’’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی ذمہ داری برطانوی رہنماؤں پر ہیں۔‘‘

برطانیہ نے 14 مارچ کو روس کے 23 سفارت کاروں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانیہ نے یہ فیصلہ روسی جاسوس کو زہر دینے کے معاملے میں روس کی طرف سے وضاحت دینے سے انکار کرنے کے بعد کیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد گزشتہ 30 برسوں میں اب تک کی یہ سب سے بڑی سفارتی بے دخلی ہے۔ وزیر اعظم کے اس فیصلے کے بعد ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہنگامی میٹنگ بلائی گئی۔ ان 23 سفارتکاروں کو برطانیہ چھوڑنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔

روس کو برطانیہ کی جانب سے ایک سابق ڈبل ایجنٹ پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے کی وضاحت کے لیے منگل کی شب تک کا وقت دیا تھا۔ روس نے حملہ کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مئے کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں سابق ایجنٹ کو دیا گیا جنگی نوعیت کا اعصاب شکن مادہ روس میں بنا ہے جبکہ امریکہ نے بھی اس واقعہ میں روس کے ملوث ہونے کی تائید کی ہے اور ناقابل قبول قرار دیا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مئے نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ’عین ممکن‘ ہے کہ انگلینڈ میں سابق روسی ایجنٹ اور ان کی بیٹی کو روس میں تیار کردہ فوجی گریڈ ’اعصاب کو متاثر کرنے والا‘ کیمیائی مادہ دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ برطانیہ نے روس کے خلاف دوسرے اقدامات کے طور پر 23 سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دینے کے علاوہ نجی پروازوں، کسٹمز اور کارگو کی مزید سخت نگرانی کی جائے گی اور روسی ریاستی اثاثے منجمد کیے جائیں گے جن کے حوالے سے شواہد ہیں کہ برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں۔ وزرا اور شاہی خاندان روس میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کریں گے اور روس کے ساتھ اعلیٰ سطح کے باہمی روابط معطل کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Mar 2018, 12:03 PM