بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے فرقہ وارانہ نہیں تھے، عوامی لیگ کا حامی ہونے کے سبب وہ نشانہ بنے: محمد یونس

محمد یونس نے کہا کہ عوامی لیگ کے کارکنان کی پٹائی کرتے وقت انھوں نے ہندوؤں کی بھی پٹائی کر دی، کیونکہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا مطلب عوامی لیگ حامی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>محمد یونس، ویڈیو گریب</p></div>

محمد یونس، ویڈیو گریب

user

قومی آوازبیورو

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں اقلیتی ہندوؤں پر حملے کے ایشو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور انھوں نے ہندوستان کے ذریعہ اسے پیش کرنے کے طریقے پر بھی سوال اٹھایا۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں محمد یونس نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے فرقہ وارانہ سے کہیں زیادہ سیاسی ہیں۔ یہ حملے فرقہ وارانہ نہیں تھے، بلکہ سیاسی اتھل پتھل کا نتیج تھے، کیونکہ ایسا نظریہ ہے کہ بیشتر ہندو معزول ہو چکی عوامی لیگ حکومت کی حمایت کرتے تھے۔

نوبل انعام یافتہ یونس کا کہنا ہے کہ ’’میں نے (وزیر اعظم نریندر) مودی سے بھی کہا ہے کہ یہ بات بڑھا چڑھا کر پیش کی جا رہی ہے۔ اس معاملے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جب (شیخ) حسینہ اور عوامی لیگ کے مظالم کے بعد ملک میں اتھل پتھل مچی تھی تو ان کے ساتھ کھڑے لوگوں کو بھی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘


واضح رہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کو عہدہ سے ہٹانے کے لیے شروع ہوئی تحریک کے دوران برپا تشدد کے دوران اقلیتی ہندو آبادی کو اپنے کاروباروں اور جائیدادوں کی توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ ستھ ہی کچھ ہندو مندروں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ 5 اگست کو غیر معمولی حکومت مخالف مظاہروں کے بعد حسینہ نے وزیر اعظم عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور ہندوستان چلی گئیں۔

بہرحال، محمد یونس کا کہنا ہے کہ ’’عوامی لیگ کے کارکنان کی پٹائی کرتے وقت انھوں نے ہندوؤں کی بھی پٹائی کر دی، کیونکہ ایسی سوچ ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا مطلب عوامی لیگ حامی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو ہوا وہ درست ہے، لیکن کچھ لوگ اسے ملکیت ضبط کرنے کے بہانے کی شکل میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے عوامی لیگ حامیوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں ہے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا چیف بننے کے فوراً بعد گزشتہ ماہ ہندوستان کے ساتھ اپنے پہلے براہ راست رابطہ میں یونس نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ڈھاکہ ہندوؤں اور دیگر سبھی اقلیتی گروپوں کے تحفظ کو ترجیح دے گا۔ بات چیت کے دوران ہندوستان کے وزیر اعظم نے ایک جمہوری، مستحکم، پرامن اور ترقی یافتہ بنگلہ دیش کے لیے ہندوستان کی حمایت کی تصدیق کی اور تشدد متاثرہ ملک میں ہندوؤں و دیگر اقلیتی طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔

ہندوؤں پر حملوں کو فرقہ واریت سے زیادہ سیاسی بتاتے ہوئے یونس نے ہندوستان کے ذریعہ ان کی ’تشہیر‘ کرنے کے طریقے پر سوال اٹھایا ہے۔ چیف ایڈوائزر نے کہا کہ ’’یہ حملے فرقہ وارانہ نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کے ہیں۔ ہندوستان ان واقعات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کر رہا ہے۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہم نے کہا کہ ہم سب کچھ کر رہے ہیں۔‘‘


ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے محمد یونس نے ہندوستان کے ساتھ اچھے روابط کی خواہش ظاہر کی، لیکن اس بات پر زور دیا کہ نئی دہلی کو یہ سوچ بدل دینی چاہیے کہ شیخ حسینہ کے بغیر بنگلہ دیش دوسرا افغانستان بن جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندوستان کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ اس سوچ سے باہر آنا ہے۔ سوچ یہ ہے کہ ہر کوئی اسلام پرست ہے، بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی) اسلام پرست ہے اور باقی سبھی اسلام پرست ہیں، اور اس ملک کو افغانستان بنا دیں گے۔ اور بنگلہ دیش صرف شیخ حسینہ کی قیادت میں محفوظ ہاتھوں میں ہے۔‘‘

محمد یونس کا کہنا ہے کہ ’’بھارت اس سوچ سے متاثر ہے۔ ہندوستان کو اس سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش کسی بھی دیگر ملک کی طرح صرف ایک پڑوسی ہے۔‘‘ مشہور ماہر معیشت نے مزید کہا کہ ’’اقلیتوں کی حالت کو اتنے بڑے پیمانے پر عکس بند کرنے کی کوشش صرف ایک بہانہ ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انھوں نے اقلیتی طبقہ کے لیڈران سے ملاقات کی تو انھوں نے ان سے گزارش کی کہ وہ صرف ہندو کی شکل میں نہیں بلکہ یکساں حقوق والے ملک کے شہری کی شکل میں احتجاج کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔