راتکو ملادچ: خونخوار ظالم جو کیفر کردارتک پہنچا
’بوسنیا کا قصائی‘ کے نام سے مشہور راتکو ملادچ کو جب 22 نومبر 2017 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تو سریبینکا اور بوسنیا کے دوسرے علاقوں میں موجود ہزاروں مسلم خواتین و مرد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے اور انصاف پر ان کا بھروسہ مضبوط ہو گیا۔ عدالت میں موجود راتکو کے مظالم کے شکار اور سریبینکا قتل عام میں ہلاک شدگان کے رشتہ دار حالانکہ اس سزا کو اس کے مظالم کے مقابلے بہت کم تصور کرتے ہیں لیکن وہ خوش ہیں کہ قاتل کے خلاف کارروائی کی گئی۔ 74 سالہ واسوا اسما بھی راتکو کے ظلم کی شکار ہیں جنھوں نے عدالتی کارروائی کا براہ راست نشریہ دیکھا اور فیصلہ صادر کیے جانے کے بعد کہا ’’میں ہر مارے جانے والوں کی گنتی کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں 50 تک گنتی کرتی ہوں اور پھر میں گن نہیں پاتی ۔ میں کیسا محسوس کر رہی ہوں یہ بتانے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں بہت غصے میں ہوں۔ فیصلہ بہت دیر بعد آیا ہے‘‘۔ 8000 مسلمانوں کے قتل عام میں اپنے شوہر اور داماد کو گنوا چکی واسوا مزید کہتی ہیں کہ ’’کیا ایسے کسی شخص کے لئے اتنی سزا کافی ہو سکتی ہے جس نے اتنے سارے جرائم کئے ہیں۔ یہ 300 سال سے بھی زیادہ ہونا چاہئے‘‘۔
دراصل راتکو ملادچ صرف 8000 مسلمانوں کا قاتل نہیں ہے بلکہ اس نے تو بوسنیا کی راجدھانی ساراجیو پر قبضہ کے عمل میں تقریباً 4 سال تک گولی باری کی اور مورٹار داغے جس میں کم و بیش 10000 مسلمانوں سمیت ہزاروں معصوم کی جانیں چلی گئیں۔ بوسنیائی سرب فوج کے سابق جنرل راتکو نے اپنے فوجیوں کو حکم دے کر یہاں کے ہزاروں لوگوں کو ان کے گھر کی خواتین سے الگ کر کے گاڑیوں میں بھر کر لے گئے اور پھر انھیں موت کی نیند سلا دیا۔ اس دوران ہزاروں خواتین کے ساتھ عصمت دری بھی ہوئی اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ راتکو کے جنگی جرائم اور نسل کشی حالانکہ 1995 میں ہی انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل فار دی فارمر یوگوسلاویہ (آئی سی ٹی وائی) کے ذریعہ ظاہر کر دی گئی تھی لیکن تقریباً 16 سال تک وہ فرار رہا یا یوں کہیں کہ اہل خانہ اور سربیائی عوام نے ان کو چھپا کر رکھا۔ ایک وقت تو وہ بھی آیا کہ 16 جون 2010 میں راتکو کی فیملی نے حکومت کو ایک درخواست دے کر انھیں مرا ہوا قرار دینے کی درخواست دی کیونکہ تقریباً 7 سالوں سے ان کی کوئی خبر دنیا والوں کے سامنے نہیں آئی تھی اور اہل خانہ چاہتے تھے کہ راتکو کی بیوی کو پنشن وصول کرنے اور ملکیت فروخت کرنے کا حق حاصل ہو جائے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ انھوں نے اپنے گھر میں ہی اسے چھپا رکھا تھا۔
بہر حال، راتکو ملادچ 16 سال تک فراری ملزم رہنے کے بعد 2011 میں گرفتار کیا گیا لیکن اس کے پیچھے بھی دلچسپ کہانی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ جولائی 1996 میں آئی سی ٹی وائی کے ٹرائل چیمبر میں راتکو کے خلاف ہوئی سماعت کے دوران ان کے جرائم کے پیش نظر بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیا گیا لیکن سربیا کے فوجی اور راتکو کے رشتہ دار انھیں ’ہیرو‘ تصور کرتے ہوئے پناہ دیتے رہے۔ سربیائی اور اقوام متحدہ کی حکومتوں نے ان سے متعلق خبر دینے والوں کے لیے بھاری انعامات بھی رکھے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 26 مئی 2011 کو گرفتاری بھی اس لیے ہوئی کیونکہ دو درجن سربیائی اسپیشل پولس نے سیکورٹی انفارمیشن ایجنسی اور وار کرائمس پروزیکیوٹر دفتر کے ایجنٹوں کی کوششوں کو عملی جامہ پہنایا۔ دراصل یہ گرفتاری اس لیے بھی ہو سکی کیونکہ سربیا یوروپی یونین کا رکن بننا چاہتا تھا اور ایک طرح سے اسے راتکو ملادچ کی قربانی دینی پڑی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سربیائی حکومت اور وہاں کے لوگوں نے مسلم اور کروئیشیائی لوگوں کے خلاف خونخوار رویہ اختیار کرنے والے راتکو ملادچ کو اتنے دنوں تک بچاتی کیوں رہی اور اسے اپنا ’ہیرو‘ کیوں تصور کرتی تھی۔ اس کا جواب29 فروری سے یکم مارچ 1992 کا وہ ریفرینڈم ہے جس میں مسلمانوں اور کروئیشیائی لوگوں نے بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ سربیائی لوگوں نے اس ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اسی ریفرینڈم کے بعد بوسنیا میں جنگی حالات پیدا ہو گئے اور بوسنیائی سرب نے مسلمانوں اور کروئیشیائی لوگوں کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ یہی سبب ہے کہ سربیائی لوگوں نے راتکو ملادچ کو سر آنکھوں پر بٹھایا، یہاں تک کہ اسے ایک محافظ کی طرح اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ 1992 سے 1995 تک چلی اس جنگ، جو کہ کئی مواقع پر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکی تھی، میں تقریباً ایک لاکھ لوگ مارے گئے۔ تاریخ میں اس واقعہ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا ظلم قرار دیا گیا تھا۔
بوسنیائی مسلمانوں کو انصاف ملنے میں تاخیر ضرور ہوئی لیکن ’دیر آید درست آید‘ مقولہ کے مطابق جج نے فیصلہ سناتے وقت اس کے جرائم کو پوری طرح آشکار کر دیا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جج الفونس اوریو نے کہا کہ ’’یہ انسانیت کی تاریخ کا سب سے دردناک جرم ہے۔ اس میں قتل عام اور تباہی ہے۔ مردوں کو موت کی سزا دینے سے پہلے ان کو بے عزت کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں، پیٹا گیا اور سربیائی نغمہ گانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ سب ظلم کی انتہا ہے۔‘‘ عدالت نے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ راتکو ملادچ نے سریبینکا میں مسلم آبادی کو ختم کرنے کے لیے ہوئے قتل عام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس نے نجی طور پر بوسنیا کے ان علاقوں پر بمباری کروائی جہاں مسلم رہتے تھے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ حقوق انسانی کے سربراہ زید الحسین نے سزا سنائے جانے کے بعد بوسنیا کے سابق ملٹری کمانڈر کو برائیوں کی مثال بتاتے ہوئے جج کے فیصلے کو انصاف کے لیے یادگار جیت بتایا۔
جب فیصلہ سنایا گیا تو بوسنیا کے مسلمان ایک طرف جہاں خوشی سے جھوم رہے تھے وہیں راتکو ملادچ کی حالت غیر ہوئی جا رہی تھی۔ حقیقت تو یہ ہےکہ اس نے پورا فیصلہ سنا ہی نہیں اور درمیان میں ہی یہ چیختے ہوئےباہر بھاگ گیا کہ’’یہ سب جھوٹ ہے، تم سب جھوٹے ہو۔‘‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آخر میں سچ کی ہی فتح ہوتی ہے جو ہو کر رہی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Nov 2017, 9:54 PM