روہنگیائیوں کے قتل عام کی تفصیلات افشا
رائٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے گذشتہ سال میانمار کی ریاست رخائن میں دس روہنگیائی افراد کے غیرقانونی قتل کے ثبوت پیش کیے تھے۔
لندن:برطانوی خبررساں ادارہ رائٹر نے میانمار فوج اور دیہاتیوں کی جانب سے روہنگیا افراد کے قتل عام کی تفصیلات افشا کی ہیں۔رائٹر کے مطابق اس گرفتاری کا تعلق ادارہ کے دو صحافیوں کو گرفتاری سے ہے۔خیال رہے کہ میانمار میں رائٹر کے دو صحافیوں ’وا لون‘ اور ’کیو سیو او‘ کو ملک کے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اب انھیں اس مقدمے کا سامنا ہے۔
رائٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے گذشتہ سال میانمار کی ریاست رخائن میں دس روہنگیائی افراد کے غیرقانونی قتل کے ثبوت پیش کیے تھے۔
انھیں امید تھی کہ ان کی جانب سے دی جانے والی معلومات عوامی توجہ کا باعث بنیں گی۔رائٹر کے ایڈیٹر ان چیف اسٹیفن جے ایڈلر کا کہنا ہے کہ ’’جب وا لون اور کیو سوئے او کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا تو ہماری اولین ترجیح ان کا تحفظ تھا۔ جب ہمیں قانونی صورتحال سمجھ آئی، ہم نے وا لون اور کیو سوئے او اور ان کے عزیز و اقارب سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ان دنوں گاؤں میں ہونے والے واقعہ کی تفصیلات شائع کرنا ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔
بی بی سی مبینہ طور پر ہونے والے قتال کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا کیونکہ اس علاقے میں جانے پر پابندی عائد ہے۔ تاہم یہ تفصیلات ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب گذشتہ سال رخائن میں ہونے والی مبینہ ہلاکتوں کے عینی شاہدوں کے بیانات کی بنیاد پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ سال بودھ اکثریتی ملک میانمار کی شمال مغربی ریاست رخائن میں پیدا ہونے والے اس بحران نے عالمی توجہ حاصل کی تھی جب ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے فوجی کریک ڈاوں کے خوف سے راہ فرار اختیار کی تھی۔میانمار کی فوج کا کہنا ہے وہ رخائن میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری ہلاک کیے گئے۔
وا لون اور کیو سوئے او دو برمی صحافی ہیں جنھیں دلیرانہ رپورٹنگ کی۔ انھیں 12 دسمبر کو پولس کے ساتھ ملاقات اور ان سے دستاویز حاصل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ’رخائن ریاست اور سیکورٹی فورسز سے متعلقہ اہم اور خفیہ حکومتی دستاویز اپنے پاس رکھنے پر گرفتار کیااور وہ یہ معلومات غیرقانونی طور پر حاصل کر کے غیرملکی میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔‘ ان کی گرفتاری کے بعد سے یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ وہ کسی بہت ہی اہم خبر کی تفتیش کر رہے تھے۔رائٹر نے اب یہ تفصیلات شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کر سکیں کہ وہ دونوں جس خبر پر کام کر رہے تھے وہ واضح طور پر عالمی مفاد میں تھیں۔
یہ واقعہ گذشتہ سال دو ستمبر کو شمالی رخائن کے گاؤں ان دن کا ہے۔
رائٹر کا کہنا ہے کہ ان کے دو صحافی بودھ دیہاتیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے انٹرویوز اور تصاویر کے ذریعے دس افراد کے قتل کے ثبوت جمع کر رہے تھے۔ خبررساں ادارہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ سب معلومات جمع کر کے بتایا کہ وہاں کیا ہوا تھا۔رائٹر کے مطابق جب گاؤں میں کارروائی کی گئی تو روہنگیا افراد کا ایک گروہ ساحل سمندر پر پناہ حاصل کیے ہوئے تھے جنھیں الگ کیا گیا۔
گاؤں کے بودھ مردوں کو ایک گڑھا کھودنے کا حکم دیا گیا اور پھر دس افراد کا قتل کیا گیا، کم از کم دو افراد کو بودھ دیہاتیوں نے قتل کیا جبکہ دیگر کو فوج نے گولی ماری۔خبررساں ادارہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں پہلی بار فوجیوں سے متعلقہ تصویری ثبوت ملے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس بودھ دیہاتیوں کے اعترافی بیانات بھی ہیں۔
برمی صحافیوں کی گرفتاری کے بعد فوج نے اپنے طور پر بھی اس واقعہ کی تحقیقات کی تھیں۔ فوج کی تحقیقات بھی ان صحافیوں کے انکشاف سے مماثلت رکھتی تھیں کہ وہاں قتل ہوئے ہیں۔
تاہم فوج نے ان دس افراد کو ’بنگالی دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے پولس اسٹیشنوں پر حملوں کی وجہ سے انھیں منتقل نہیں کیا جا سکا تھا۔
رائٹر کا کہنا ہے کہ دونوں صحافیوں نے پولس اہلکاروں اور ان دونوں گاؤں میں کئی عینی شاہدین اور ہلاک ہونے والے مردوں سے بات چیت کی جو اب بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپس میں رہ رہے ہیں۔ ایک شخص نے ایک مسلمان روہنگیا کو قتل کر نے کااعتراف بھی کیا تھا۔
بی بی سی نے میانمار حکام سے رائٹر کی اس رپورٹ پر ردعمل جاننے کی کوشش کی تاہم تاحال جواب کے منتظر ہیں۔ تاہم میانمار کے حکومتی ترجمان زا ہٹے نے رائٹر کو بتایا کہ ’’ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ترید نہیں کر رہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ اگر زیادتیوں کا کوئی ’مضبوط اور مصدقہ ثبوت‘ہوا تو حکومت اس کی تفتیش کرے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔