بچوں کا مستقبل چولہے کی نظر !

جہاں اعلی تعلیم کا فقدان ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا مرض ہے وہیں بعض گھرانوں میں تربیت کے فقدان کی بنا پر اعلی تعلیم کے بعد بچوں کا ہاتھ سے نکل جانا ایک مسئلہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

موجودہ وقت میں یوں تو ہمارا معاشرہ ہر روز ایک نئے بحران سے پنجہ آزمائی کرتا نظر آتا ہے، ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ایک نیا بحران بھی طلوع ہوتا ہے ، ہمارے چاروں طرف بحرانوں کی ایک لمبی قطار ہے ، ثقافتی بحران کا ہم پہلے ہی شکار ہیں ، اقتصادی بحران ہمارا پیچھا نہیں چھوڑرہا ہے ، سیاسی بحران ہمیں ابھرنے نہیں دیتا ، اخلاقی بحران نے ہمارے وجود کو کھوکھلا کردیا ہے ، معاشرتی بحران نے ہمیں بے کل کر رکھا ہے، انہیں سب بحرانوں کے ساتھ جو ایک خطرناک بحران ہے وہ تعلیمی بحران ہے ، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں دیگر بحرانوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔اس کے لیے کسی اورسے زیادہ ہم خود ذمہ دارہیں ۔

معاشرے کی بڑی مشکل یہ ہے کہ اعلی تعلیم کو لیکر جو بیداری ہونا چاہیے وہ نہیں ہے ۔آج ہم بغیر علم کے دو قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے لیکن افسوس اعلی تعلیم تو دور اس کے حصول کے سلسلہ سے ہی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت اس بات سے ہی غافل ہے کہ اعلی تعلیم ہمیں کیا دے گی ؟ ہماری قومی ساکھ میں تعلیم کا کیا کردار ہے ؟ نتیجہ یہ ہے جن گھروں میں فکر ہے کہ آگے چل کر ہمیں کیا کرنا ہوگا وہ تو کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں اور بچوں کے تئیں فکر مندی کی بنیاد پر بہت کچھ کر پاتے ہیں مگر جہاں ساری فکر روٹی کمانے پر ہے وہاں بس یہ رہتا ہے کہ بچہ اتنا پڑھ لے کہ کمانے لگ جائے اور چاہے وہ بہت ہی معمولی نوکری ہی کیوں نہ ہو، ماں باپ بس یہ دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں کہ بچہ کما رہا ہے ۔


جبکہ اگر اس بات پر توجہ دیتے کہ یہ بچہ بغیر پڑھے کہیں نہیں پہنچ سکتا اور اگر صحیح سے پڑھ لے گا تو کمائی بھی بہتر ہو جائے گی تو معاملہ ہی کچھ اور ہوتا۔ کتنے ہی ایسے گھر ہیں جہاں پر بچے حیران و سرگرداں نظر آتے ہیں، اسکولوں میں تعلیم کے لیے ضروری وسائل کے سلسلے سے روز انہیں نوٹ لکھ کر دیا جاتا ہے ، لیکن گھروں سے پھر خالی ہاتھ واپس اسکول پہنچتے ہیں اور اسکول میں اساتذہ و دیگر اپنے ساتھیوں کے سامنے شرمندگی کو برداشت کرتے ہیں۔ غلطی بچے کی نہیں ہوتی لیکن ماں باپ کی کاہلی و ان کے نکمے پن کی وجہ سے سزا بچوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ وہ بہت ہی حساس مرحلہ ہے ،بچوں کے مستقبل کی خاطرہم سب کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کہیں کہیں تو عجیب ہی صورت حال ہے ۔نیا سال آ جاتا ہے لیکن نہ ایڈمیشن کی فکر نہ بچوں کی فیس کو لیکر کوئی فکر مندی بعض مقامات پر بعض ایسے ادارے ہیں جو فیس کتابوں وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں تو اس وجہ سے ایک بڑی مصیبت یہ آ گئی ہے کہ بجائے کوشش کرنے کے گھر کے اخراجات کو کم کر کے عزت نفس کو محفوظ رکھتے ہوئے کمائی کا کچھ حصہ اپنے بچوں کی زندگی سنورنے میں لگانے کے کچھ لوگ یہ سوچ کر مطمئن بیٹھ جاتے ہیں کہ کتابیں فلاں ادارے سے مل جائیں گی ، یونیفارم کے پیسے فلاں فلاحی ٹرسٹ سے مل جائیں گے، بیگ اور بستے کے لئے فلاں نیک صفت مومن انسان سے کہہ دیں گے تو کام ہو جائے گا۔ اب آ پ خود سوچیں اس طرح سے تعلیم کہاں تک حاصل کی جا سکتی ہے۔


ممکن ہے دسویں تک ادھر ادھر سے جوڑ توڑ کر مخیرین، ٹرسٹ و فلاحی اداروں سے مدد لے کر ہم کچھ کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اعلی تعلیم کہاں سے ممکن ہوگی۔ اعلی تعلیم کے لئے بہت دل گردے کی ضرورت ہے۔ اب یہاں دو طرح کے لوگ ہیں کچھ تو بے چارے ساری چیزوں سے اپنے اخراجات کم کر کے اعلی تعلیم کے حصول میں بچوں کو نہ صرف لگاتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم پڑھو ہم ہیں ؟ جو محنت مشقت کر کے ادھر ادھر سے قرض لے کر اپنے بچوں کو کچھ نہ کچھ بھلا کر ہی دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رونا روتے رہتے ہیں کہ ہم کہاں سے پڑھائیں، تعلیم اتنی مہنگی ہے ۔ گھر کا خرچ تو نکلتا نہیں ہے فیس کہاں سے دیں ۔

ایسے افراد اپنے بچوں کو نفسیاتی طور پر الجھن میں ڈال دیتے ہیں جبکہ اگر یہی لوگ بجائے شکوے شکایتوں کے کوشش کرتے اور بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے تو شاید صورت حال کچھ اور ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ دوسری قوموں میں بھی تو ایسا ہی ہے، کتنے ہی غریب و نادار لوگ اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر کہاں سے کہاں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ؟ یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ساری مشکلات ہمارے ہی لئے ہیں دوسروں کے لئے نہیں ہیں؟ نہ جانے کتنے ایسے گھر ہیں جہاں پورے مہینے کا راشن بھی مشکل سے ہو پاتا ہے لیکن وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ کھاتے کم ہیں پڑھاتے زیادہ ہیں ، کتنے ہی رکشا چلانے والے ٹیکسی ڈراﺅر وغیرہ کے بچے اپنی محنت اور ماں باپ کے سپورٹ سے اعلی تعلیمی مراحل کو طے کر لیتے ہیں ۔


ایسے لوگ کسی ٹرسٹ کی محتاجی اور کسی فلاحی ادارے کے چکرلگانے کے بجائے تمام تر گھر کے معاملات کو خود ہی دیکھتے ہیں اور بچوں کو فکر مندہو کر پڑھنے میں لگے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔ کاش ہمارے گھروں میں جس طرح شادی،عقیقہ، برتھ ڈے کا بجٹ بنتا ہے اسی طرح تعلیم کا ایک بجٹ معین ہو جو گھر کے دیگراخراجات سے زیادہ ہو۔ ہمارے یہاں گھروں میں صرف فضول خرچی پر اگر کنڑول کرلیا جائے تو تعلیم کے لئے کچھ نہ کچھ بچایا جا سکتا ہے، اگر ایک غریب سے غریب شخص یہ تہیہ کر لے کہ بچوں کی تعلیم کے لئے اسے ہر دن 50 روپئے بچانا ہے تو سوچیں مہینے میں 1500 تو یوں ہی بچ جائیں گے۔ اس طرح سال بھر میں اتنا ہو سکتا ہے کہ کسی ایک اچھے کورس کی فیس کے لئے کہیں بھاگنا نہ پڑے۔

ان ماں باپ پر ہمارا کروڑوں سلام ہو جو دن بھر محنت کرتے ہیں، مشقت کرتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ لیں، ترقی کر لیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہو کر قوم و ملک کی خدمت کر سکیں۔ کسی نے بڑی اچھی بات کی ہے کہ غریب گھرانوں کا بڑا مسئلہ چولھا ہو گیا جس کے سبب ساری فکر چولہے کی طرف رہتی ہے نہ بصیرت ہوتی ہے نہ دور اندیشی ،نتیجہ میں بچوں کا مستقبل چولہے کی نظر ہو جاتا ہے۔ جہاں اعلی تعلیم کا فقدان ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا مرض ہے وہیں بعض گھرانوں میں تربیت کے فقدان کی بنا پر اعلی تعلیم کے بعد بچوں کا ہاتھ سے نکل جانا ایک مسئلہ ہے۔ یہ اور بڑی مصیبت ہے جس کی وجہ سے ہم معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔


امید ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی ہماری توجہ رہے گی، وہ گھرانے جہاں تعلیم پر توجہ نہیں ہے اس بات کو سمجھیں گے کہ ملک میں کچھ کرنا ہے، دنیا میں مقام بنانا ہے تو بغیر اعلی تعلیم کے یہ ممکن نہیں ہے۔ جہاں تعلیم پر توجہ ہے وہاں یقینا اس بات پر بھی توجہ ہوگی کہ ایسی تعلیم زہر ہے جس میں دین کا عنصر شامل نہ ہو، عصر ی تعلیم بہت ضروری ہے لیکن بغیر معنویت کے یہ تعلیم ایسے ہی ہے کہ کسی چور کے ہاتھوں میں مارڈن ٹکنالوجی دے دی جائے کہ نت نئے طریقے اختیار کر کے وہ دوسروں کا مال اڑا دے۔ امید ہے کہ ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوں گے اور اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تقاضوں سے غافل نہیں رہیں گے تاکہ کم از کم تعلیمی بحران سے کسی قدر خود کو نکال کر دیگر بحرانوں کا شکار ہونے سے بچا سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔