فضل الرحمن نے دھرنے سے کیا کھویا، کیا پایا؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تیرہ روزہ پر امن احتجاج سے مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت نہیں گرا سکے لیکن بظاہر اس سے ان کے ہزاروں کارکنوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔
جمعیت علماء اسلام کے اس دھرنے کا بنیادی مقصد وزیراعظم کو استفعے پر مجبور کرنا تھا، جو وہ نہیں حاصل کر سکے۔ لیکن حزب اختلاف اور جے یو آئی کے کارکنان کا اصرار ہے کہ اس احتجاج سے انہیں نیا حوصلہ ملا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی یہ مہم ناکام ہوئی۔ لیکن نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو کا کہنا ہے کہ اس دھرنے نے خوف کا ماحول توڑا ہے۔
مولانا نے جب احتجاج شروع کیا تو دھرنے میں نواز لیگ، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، جمعیت علما پاکستان، قومی وطن پارٹی سمیت تقریباﹰ نو سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی لیکن دھرنے کے آخری دنوں میں صرف نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور کچھ کارکنان ہی ان کے ساتھ رہ گئے تھے۔
"عمران کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس شدید مہنگائی، بے روزگاری اور کاروبار کی تباہی کے باوجود لوگ کھل کر احتجاج کرنے سے ڈر رہے تھے۔ اس دھرنے کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اس خوف کو توڑا ہے۔" انہوں کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اب حزب اختلاف کی جماعتیں کھل کر اس حکومت کےخلاف احتجاج کا حصہ بنیں گی۔
جے یو آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ "پلان بی" کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ تنظیمی کارکنوں کو واپس اپنے علاقوں میں جانے دیا جائے تاکہ وہ وہاں لوگوں کو متحرک کریں۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے جمعیت کے کارکن محمد عارف نے کہا کہ اس دھرنے نے عمران خان کی سیاست کو بے نقاب کیا: "پوری دنیا میں جمعیت کا نام ہوا۔ لوگوں نے دیکھا کی داڑھی اور ٹوپی والے دہشت گرد نہیں ہوتے۔"
کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے رضوان اللہ کے خیال میں عمران خان کے خلاف تحریک ایک لڑائی کی طرح ہے۔ "اس جدوجہد میں کبھی آگے تو کبھی پیھچے ہٹنا پڑتا ہے۔ میں نہیں سمھجتا کہ ہمیں ناکامی ہوئی۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں اور عمران خان کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔"
تاہم حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کی ایک وجہ اخراجات بھی تھے۔ ایک رہنما کہا کہ، "مولانا نے مختلف افراد سے مالی مدد طلب کی لیکن کسی نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا۔ اسلام آباد مہنگا شہر ہے۔ یہاں اتنے دن کے لیے بیٹھنا اور وہ بھی پیسوں کے بغیر، بہت مشکل ہے۔"
حزب اختلاف کے ایک اور رہنما نے کہا کہ، "ہمارے ایک ہزار سے زائد کارکنان بیمار ہوگئے۔ جب کہ دھرنے کی جگہ پر صحت و صفائی کی صورت حال بھی بہت اچھی نہیں تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ اسے یہاں سے ختم کر کے پورے ملک میں پھیلا جائے۔"
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جمیعت کےکارکن محمد نیازو نے کہا، "مجھے تھوڑی سی مایوسی ہوئی ہے لیکن میں اپنے قائد کے حکم پر جان قربان کرنے کو تیار ہوں۔ اب ہم پورے ملک کو بند کریں گے اور اگر حکومت نے طاقت استعمال کی یا فوج کو بلایا تو ہم ان سے بھی نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔