’ہم میانمار جا کر مرنا نہیں چاہتے‘، روہنگیا پناہ گزینوں کی فریاد
ملک کی راجدھانی دہلی میں شاہین باغ کا شرم وِہار 2012 سے روہنگیا مسلم پناہ گزینوں کی رہائش رہا ہے، لیکن جب سے انھیں پولس کے ذریعہ نئے انداز کا فارم بھرنے کے لیے دیا گیا ہے، ان میں خوف و دہشت ہے۔
اوکھلا کے شاہین باغ واقع شرم وِہار میں بسے روہنگیا پناہ گزینوں میں خوف کا ماحول ہے اور یہ خوف 9 اکتوبر کی رات سے مزید بڑھ گیا ہے۔ وجہ ہے وہ فارم جو جامعہ نگر پولس کے ذریعہ روہنگیا پناہ گزینوں کو بھرنے کے لیے دیا گیا ہے اور 10 اکتوبر کو 3 بجے تک انھیں ہر حال میں ایسا کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ شرم وِہار میں بسی 82 روہنگیا فیملی اس فارم کو بھرنے سے اس لیے انکار کر رہی ہے کہ وہ برما یعنی میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔ ’قومی آواز‘ نے شرم وِہار پہنچ کر روہنگیا پناہ گزینوں سے جب بات کی تو ان کے اندر کا خوف صاف نظر آ رہا تھا۔ محمد سراج اللہ عرف ریاض بتاتے ہیں کہ ’’میانمار کا ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ وہاں ہماری جان کو خطرہ ہے اس لیے ہم وہاں جانا نہیں چاہتے۔ پولس نے کہا ہے کہ جلد فارم نہیں بھر کر دیا گیا تو کچھ لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ ہمیں ڈر ہے کہ فارم بھر کر دیں گے تو ہمیں بھی آسام کے 7 روہنگیا پناہ گزینوں کی طرح میانمار بھیج دیا جائے گا۔‘‘
محمد یونس بھی شرم وِہار میں رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم بہت مشکل حالات سے گزر کر یہاں آئے تھے اور میانمار میں اب بھی ظلم و بربریت جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم وہاں جانا نہیں چاہتے، کون اپنا گھر اور اپنے لوگوں سے الگ رہنا چاہے گا، لیکن جب تک حالات بہتر نہیں ہو جاتے ہم یہیں رہنا چاہتے ہیں۔ حالات بہتر ہونے کے بعد کوئی ہمیں روکے گا تو بھی نہیں رکیں گے۔‘‘ اس بستی میں رہنے والی ایک خاتون مرجینا کا کہنا ہے کہ ’’ہم یہاں کے لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے۔ یہاں بسے روہنگیائی پناہ گزین محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور بچوں کو مقامی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ ہم یہاں اس لیے ہیں کیونکہ میانمار میں ہماری جان کو خطرہ ہے۔‘‘
دراصل ہر سال روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک فارم بھر کر اپنی تفصیلات تھانہ میں جمع کرنی ہوتی ہے اور اس بار بھی تفصیلات ایک فارم میں طلب کی گئی ہیں۔ لیکن اس بار کا فارم بہت مختلف ہے۔ فارم میں بھائی، والدین کے بھائی، شوہر/بیوی کے بھائی اور ان کا پیشہ و پتہ وغیرہ مانگا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں میں خوف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تفصیلات دے دی گئیں اور کسی طرح میانمار ایمبیسی تک پہنچ گئیں تو میانمار میں انھیں پریشان اور زد و کوب کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں روہنگیا کمیونٹی لیڈروں نے ایک خط جامعہ نگر تھانہ ایس ایچ او کے نام لکھ کر انھیں پیش کیا لیکن ریاض کا کہنا ہے کہ اسے لینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد شرم وِہار میں مزید خوف اور سراسیمگی کا عالم ہے۔
شرم وِہار میں روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ کچھ ہندوستانی شہری بھی گھر بنا کر رہ رہے ہیں۔ ’قومی آواز‘ نے ان سے بھی بات کی۔ علاقے میں ذمہ دار کی حیثیت سے لوگوں کے مسائل دور کرنے میں پیش پیش رہنے والی تنویر بتاتی ہیں کہ ’’ان روہنگیائی مسلم سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے اور مجھے پتہ چلا کہ پولس نے انھیں فارم بھرنے کے لیے دیا ہے جسے یہ بھر کر جمع نہیں کر رہے۔ یہ لوگ دہشت میں ہیں کہ کہیں انھیں میانمار نہ بھیج دیا جائے۔ ان کی پریشانی لے کر میں جامعہ نگر تھانہ کے ایس ایچ او سے ملی اور پوچھا تو انھوں نے فارم کو محض خانہ پری بتایا اور میانمار بھیجے جانے کی بات سے انکار کیا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’آسام کے 7 روہنگیا پناہ گزینوں کو میانمار بھیجے جانے سے یہ لوگ پریشان ہیں اور اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولس سے بھی ہم لگاتار رابطے میں ہیں اور روہنگیا پناہ گزینوں سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔‘‘
اوکھلا کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان سے جب ’قومی آواز‘ نے فون پر اس تعلق سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’’پولس کے ذریعہ زبردستی فارم بھرائے جانے کی بات تو مجھے معلوم نہیں لیکن اگر مسلم روہنگیا پناہ گزینوں کو کوئی دقت ہے تو میں ان سے ملاقات کر تفصیلات ضرور جاننا چاہوں گا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جو بھی روہنگیا پناہ گزین ہندوستان میں ہیں انھیں اپنی تفصیلات پولس میں جمع کرانی ہوتی ہیں اور اس میں کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے، اور جہاں تک انھیں جبراً میانمار بھیجے جانے کا خوف ہے، تو میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ شرم وِہار کو روہنگیائی مسلمانوں نے 2012 میں اپنا ٹھکانہ بنایا تھا اور پھر 15-2014 میں بڑی تعداد میں روہنگیائی مسلمان اپنی جان بچا کر یہاں پہنچے تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس وقت 82 روہنگیائی فیملی یہاں جھگی جھونپڑی بنا کر مقیم ہے اور ان کی تعداد کم و بیش 400 ہوگی۔ ان میں خواتین و بچوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ کچھ روہنگیائی مسلم بھاڑے پر آٹو چلاتے ہیں تو کچھ مزدوری کر کے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ اس بستی میں رہنے والی ایک ہندوستانی ریحانہ خاتون کا کہنا ہے کہ ان کا رہن سہن بہت اچھا نہیں ہے اور آپس میں اکثر لڑائی جھگڑا کرتے ہیں جس سے ہم دہشت میں رہتے ہیں، لیکن یہ جن حالات میں میانمار سے آئے ہیں انھیں پریشان دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب سے پولس نے انھیں فارم بھرنے کے لیے دیا ہے، یہاں بسے ہندوستانی لوگ بھی ان کی مدد کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Oct 2018, 7:09 PM