تعلیمی اداروں پر بڑھتے حملوں کے خلاف سہ روزہ ’جن ٹریبونل‘
ٹریبونل کے پہلے دن پروفیسر رومیلا تھاپر نے کہا کہ ’’ ہم ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی پوری توجہ صرف کتابوں اور نصابوں پر کنٹرول بنائے رکھنے پر ہے۔‘‘
تعلیمی اداروں، طلبا اور اساتذہ پر بڑھتے حملوں کے مدنظر پیپلز کمشنر فار شریکنگ ڈیموکریٹک اسپیسز‘ (پی سی ایس ڈی ایس) نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں 13-11 اپریل 2018 تک سہ روزہ ’جن ٹریبونل‘ کا انعقاد کر رہا ہے۔ اس ٹریبونل میں ملک بھر کی 18 ریاستوں سے آئے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ شہری طبقہ کے لوگ، میڈیا عملہ اور وکلاء شرکت کر رہے ہیں۔
2014 میں مودی حکومت کے آنے کے بعد سے ہی عدم اتفاق اور مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں پر ہوئے حملوں کے شکار طبقات میں ایک بڑا طبقہ طلبا کا رہا ہے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد سے ہی طلبا اور تعلیمی اداروں پر ہو رہے حملوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جادھو پور یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی جیسے تمام ایسے تعلیمی ادارے رہے ہیں جہاں طلبا اور ان کی تحریکوں کو دبایا گیا ہے۔
11 اپریل 2018 کو ٹریبونل کے پہلے دن پی سی ایس ڈی ایس کی جانب سے بولتے ہوئے گجرات کے سماجی کارکن روہت پرجاپتی نے کہا کہ پی سی ایس ڈی ایس کی تشکیل ملک میں سکڑ رہے جمہوری مواقع اور عدم اتفاق پر بڑھ رہے حملوں کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس تین دن کے ’جن ٹریبونل‘ میں ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا، اساتذہ اور ماہرین کے تقریباً 110 بیانات کو سن کر مقررکردہ جیوری کمیٹی کے ذریعہ ایک حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔ اس رپورٹ اور جیوری کمیٹی کی سفارشات کو ہم قومی حقوق انسانی کمیشن اور دیگر اداروں کو بھیجیں گے۔
اس موقع پر کرشن کمار نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ کہا کہ ملک میں تعلیمی اداروں پر حملے کوئی نیا واقعہ نہیں ہے لیکن گزشتہ دنوں میں روہت ویمولا کی خودکشی یا پھر جواہر لال نہرو اسٹوڈنٹ یونین کے اس وقت کے صدر کنہیا کمار کو جس طرح پریشان کیا گیا اس نے پورے تعلیمی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لیکن اس پورے معاملے کو جتنی آسانی سے بھلا دیا گیا ایسا اب تک کبھی نہیں ہوا تھا۔
جے این یو کے طلبا لیڈر اور جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار نے اس موقع پر کہا کہ ملک میں تعلیمی نظام کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک وقت تھا جب ’ملک کے بجٹ کا دسواں حصہ تعلیمی کا ہو‘ کے نعرے لگتے تھے اور آج ایک اسٹوڈنٹ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تم کیوں پڑھ رہے ہو؟‘‘ کنہیا کمار نے مزید کہا کہ تعلیمی نظام کی یہ بگڑتی حالت صرف مودی حکومت کی دی ہوئی نہیں ہے، 90 کی دہائی کے بعد سے ہی ملک میں نجکاری اور گلوبلائزیشن کی پالیسیوں کے تحت تعلیم کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کے لیے لگاتار سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار ختم کیا گیا۔
تاریخ کے ماہر پروفیسر رومیلا تھاپر نے بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ تعلیمی نظام پر کسی بھی مرکزی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت کی پوری توجہ صرف کتابوں اور نصابوں کو قابو میں رکھنے پر ہے۔ پروفیسر تھاپر نے کہا کہ جے این یو، ایچ سی یو، بی ایچ یو جیسے تمام تعلیمی اداروں پر جتنی تیزی کے ساتھ حملے ہو رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے وقت میں زیادہ تر اساتذہ غیر مستقل ہیں جس کی وجہ سے وہ روزگار جانے کے خوف سے بھی کبھی حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بول پانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔
ٹریبونل کے پہلے دن جے این یو، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز ممبئی، عثمانیہ یونیورسٹی، آسام مہیلا یونیورسٹی، گواہاٹی اور ڈبرو گڑھ یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن نئی دہلی، لکھنو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، انگلش اینڈ فورن لینگویجز یونیورسٹی حیدر آباد، گجرات یونیورسٹی کی طرف سے 26 درخواست آئے ہیں جن میں سے 21 طلبا، 2 اساتذہ اور 3 ماہرین کے درخواست تھے۔
ٹریبونل کی جیوری کمیٹی میں پروفیسر رومیلا تھاپر (سبکدوش)، اے پی شاہ، جسٹس (سبکدوش) بی جی کولسے پاٹل، جسٹس (سبکدوش) ہاسبیٹ سریش، پروفیسر امت بہادڑی، ڈاکٹر اوما چکرورتی، پروفیسر ٹی کے اُمن، پروفیسر مہر انجینئر، پروفیسر واسنتھی دیوی، پروفیسر کلپنا کنّابیرن، پروفیسر گھنشیام شاہ اور پامیلا فلیپوس شامل تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔