عام انتخابات ميں تين خواتین امیدوار، مودی کے ليے چيلنج
ہندوستان میں آئندہ ہفتے سے شروع ہونے والے عام انتخابات میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو تین خواتین امیدواروں سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
بھارت میں گیارہ اپریل سے انیس اپریل تک سات مراحل میں پارلیمانی انتخابات کا انقعاد ہو گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے دوسری مرتبہ انتخابات جیتنے کے راستے میں چند معروف خواتین امیدوار رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ عوامی سطح پر مقبول اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی تین خواتین امیدواروں کی شخصیات پر نظر ڈالتے ہیں۔
ممتا بینرجی
2011ء سے مغربی بنگال کی باگ ڈور ممتا بینرجی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ عوامی سطح پر انتہائی مقبول بھی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر برائے ریلوے ’دی دی‘ یعنی بڑی بہن کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق آل انڈیا ترینیمول کانگریس پارٹی سے ہے۔
64 سالہ ممتا بینرجی کا نام نریندر مودی کے سخت ترين ناقدین میں شامل ہوتا ہے، وہ حکومت مخالف اتحاد بنانے میں بھی سرگرم رہی ہیں۔
بھارت کی مشرقی ریاست ’مغربی بنگال‘ کی آبادی جرمنی سے بھی زیادہ ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ممتا بینرجی عوام میں خاصی مقبول ہیں اور وہ اگر انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں تو حکومت سازی میں ان کا اہم کردار ہوگا۔ اس ریاست میں وزیراعظم مودی کی قوم پرست سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کو بہتر کاکردگی دکھانی ہوگی۔
’دلت کوئین‘ مایاوتی
سابق صوبائی وزیر اعلیٰ اور بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی دلت کمیونٹی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ 63 سالہ مایاوتی ’دلت کوئین‘ یعنی دلتوں کی رانی کے نام سے مشہور ہیں۔ مایاوتی کی جماعت سماج وادی پارٹی سوشلسٹ نظریات والی سیاسی جماعت ہے۔ اتر پردیش بھارت میں آبادی کے اعتبار سے 200 ملین شہریوں کے ساتھ سب سے بڑی ریاست ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ اٹھارہ فیصد ہے۔
ناقدین مایاوتی پر اپنی ذاتی خواہشات کے لیے اقدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور سرکاری خزانے سے خود نمائشی کا الزام لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مایاوتی نے سن 2014 میں مبینہ طور پر ایک سینڈل کی جوڑی منگوانے کے لیے ایک نجی طیارہ امریکا بھجوایا اور انہوں نے متعدد عوامی پارکس میں اپنے مجسمے بھی بنوائے۔
بعض سیاسی ماہرین کے خیال میں مایاوتی مخلوط حکومت بنانے میں قلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس مرتبہ مایاوتی کا سیاسی ایجنڈا زیادہ تر بی جے پی کی ’فرقہ وارانہ سیاست‘ پر تنقید کے گرد گھوم رہا ہے۔
پرینکا گاندھی
پرینکا گاندھی واڈرا نے رواں برس جنوری میں انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔
کانگریس کا جنرل سیکرٹری اور مشرقی یوپی کا انچارج بنائے جانے کے بعد پہلی مرتبہ پرینکا کے لکھنؤ میں ہوئے روڈ شو میں پورے صوبے سے لاکھوں افراد شامل ہوئے، جن میں مسلم افراد کی تعداد اوروں کے مقابلے میں زیادہ رہی تھی۔
سینتالیس سالہ پرینکا گاندھی کو خصوصاﹰ اتر پردیش میں کانگریس کی نمائندگی کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے کیونکہ بھارتی پارلیمنٹ کی کل پانچ سو تینتالیس سیٹوں میں سب سے زیادہ اسی سیٹیں ’یو پی‘ میں ہی ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم بھی ’یو پی‘ کی بنارس سیٹ سے ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ راجیو گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی کے حمایتیوں کی نظر میں پرینکا اپنی دادی اندرھا گاندھی کے مزاج سے مشابہت رکھتی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پرینکا گاندھی بھارت کی 170 ملین مسلمان آبادی کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ماضی میں کانگریس پارٹی کو ہندو اکثریت ووٹر کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کا سامنہ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔