پاکستان میں جاری احتساب کا عمل: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
پاکستان میں ایک طرف انسداد بد عنوانی کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے درميان فاصلے کم ہو رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا منگل کو کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی ممکنہ مشترکہ لائحہ عمل کے حوالے سے تمام جماعتوں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے ميں حتمی فیصلہ يہ جماعتیں اپنے اپنے فورم پر کریں گی کہ وہ کب حکومت کے خلاف متفقہ جدوجہد اور تحریک کا حصہ بنیں گی۔ مولانا فضل الرحمان اگلے ایک سے دو دنوں میں آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
اس سے پہلے لاہور کی احتساب عدالت میں رمضان شوگر ملز ریفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز پر سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔ عدالت میں نیب کے پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ نے کہا کہ رمضان شوگر ملز کی طرف جانے والے ایک نالے کی تعمیر پر سرکاری خزانے سے اکيس کروڑ روپے خرچ کيے گئے۔ بعد ازاں عدالت نے رمضان شوگر ملز ریفرنس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد کر دی۔ تاہم دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔ اس مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی شہباز شریف کو ضمانت پر رہا کر چکی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نیب کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار طاہر ملک کا کہنا تھا کہ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان میں سیاسی معاملات عدالتوں کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جاری کارروائیوں کے سیاسی اثرات ضرور ہوں گے۔
طاہر ملک نے سوال اٹھایا کہ نواز شریف، زرداری اور حمزہ شہباز جیسے لیڈروں پر جن معاملات یں مقدمات بنائے جا رہے ہیں، وہ کافی پرانے ہیں ۔ ’’اصل بات تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری یا کرپشن کر رہے تھے، اس وقت قانون نافذ کرنے والے تمام متعلقہ ادارے کہاں تھے؟ میرے خیال میں ان مقدمات کی ٹائمنگ سے لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ صرف چند مہینے پہلے جب نواز شریف ان مقدمات کی زد میں تھے، تو اس وقت زرداری اداروں کی نظر میں نیٹ اینڈ کلین تھے۔ دراصل ان مقدمات کی ٹائمنگ کئی سوال پیدا کر رہی ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے زیادہ تر احتساب سیاسی شخصیات کا ہی کیوں ہوتا ہے، دوسرے اداروں کے لوگ سیاستدانوں کی طرح احتسابی شکنجے کی زد میں کیوں نہیں آتے، طاہر ملک کا کہنا تھا کہ اس خطے کی تاریخ ہی کچھ اس طرح کی رہی ہے۔ ان کے بقول، ’’ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت ختم کی، تو ان پر ناقص حکمرانی، نا اہلی اور بد عنوانی کے الزامات لگائے گئے۔ ادھر پاکستان میں ہم نے جنرل ایوب خان کے زمانے میں بھی سیاست دانوں کی کرپشن کا ذکر سنا۔ پھر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بھی اسی اسکرپٹ سے کام لیا گیا۔ اور تو اور نواز شریف نے بھی کسی کے کہنے پر بے نظیر کے خلاف یہی ماڈل اپنایا اور بعد ازاں بے نظیر نے بھی نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز بنائے۔‘‘
طاہر ملک کے نزدیک اصل مسئلہ افراد کی کرپشن نہیں بلکہ نظام کی کرپشن کا ہے، ’’ہم ستر سالوں سے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ کبھی ہم فوج کی طرف دیکھتے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کو مسائل کا حل سمجھنے لگ جاتے ہیں اور کبھی سمجھتے ہیں کہ کاروباری پس منظر والے سیاست دان ہمارے مسائل حل کر ديں گے۔‘‘ ان کے بقول یہ سب عارضی اقدامات ہیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے موثر اصلاحات کے ذریعے ایسا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس سے کرپشن کی طرف جانے والے راستوں کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو ایسا شعور، ایسی تعلیم اور ایسی سوچ دی جائے جس کے نتیجے میں ملک نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ترقی کر سکے۔ انہوں نے کہا، ’’بدقسمتی سے اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔‘‘
روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایاز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت الجھن عروج پر ہے۔ ’’کبھی اچانک کوئی پکڑا جاتا ہے اور کبھی اچانک چھٹی والے دن کسی کو ضمانت مل جاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کھیل کے پیچھے کون ہے اور وہ حتمی طور پر کیا چاہتا ہے۔ شیٖخ رشید تو کھلم کھلا بتاتے ہیں کہ شہباز شریف طاقتور حلقوں سے این آر او مانگتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے، تو اس کا امکان ہو سکتا ہے کہ تازہ پیش رفت کے ذریعے مریم نواز کی جگہ حمزہ شہباز کو لیڈر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہوں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ایاز خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت تک سیاسی احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا جب تک ان تحریکوں کے پیچھے بالادست طاقتیں نہ ہوں۔ اس لیے فوری طور پر تو اپوزیشن کی طرف سے چلائی جانے والی کسی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ایاز خان کا کہنا تھا کہ فی الحال پاکستان کے حالات میں فوری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں وسیع پیمانے پر کرپشن کی گئی لیکن اگر احتساب کے ادارے اس کرپشن کو عدالتوں میں ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور لوٹی گئی رقوم واپس نہیں ملتیں، تو پھر احتسابی عمل پر خرچ کيے جانے والے وسائل کا ضیاع ہو گا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔