طیب ایردوغان ترکی کے دوبارہ صدر منتخب

ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صدر طیب اردوغان کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے اور اس سے ترکی کی تاریخ میں نیا باب شروع ہو گا کیونکہ انتخابات کے بعد ترکی میں نیا آئین نافظ ہونا ہے ۔

طیب اردوغان کی فائل تصویر 
طیب اردوغان کی فائل تصویر
user

قومی آواز بیورو

ترکی میں ہوئے انتخابات کے نتائج کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ صدر رجب طیب اردوغان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں اور وہ دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق طیب اردوغان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 31 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ حتمی نتائج کا اعلان جمعے کو کیا جائے گا۔تاہم حزب اختلاف نے ابھی تک صدر اردوغان کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے اور سرکاری نتائج سے پہلے کہا تھا کہ ابھی بھی بہت سارے ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے اور نتائج جو بھی ہوں وہ ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق صدر کی اے کے پارٹی 42 سب سے آگے رہی ۔اتوار کی صبح صدر اردوغان نے استنبول میں کہا کہ ’اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گزر رہا ہے۔‘صدر اردوغان چاہتے تھے کہ انھیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راؤنڈ میں نہ جائے۔

سی این این ترک اور دوسرے مقامی نشریاتی اداروں کے مطابق صدر ایردوغان کی حکمراں جماعت انصاف اور ترقی پارٹی ( آق ) نے پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے 61.1 فی صد ووٹوں میں سے 45.18 فی ووٹ حاصل کر لیے ہیں ۔اس کی اتحادی قومی تحریک پارٹی نے 11.78 ووٹ حاصل کیے ہیں۔اس طرح ان دونوں جماعتوں کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل ہونے کی امید ہے۔

ترکی میں پہلی مرتبہ وسط مدتی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے لیے بیک وقت ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو کے مطابق صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 88 فی صد رہی تھی۔

دوسرے دو صدارتی امیدواروں قوم پرست گڈ پارٹی کے میرل اکسنر نے سات فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔کرد نواز پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار صلاح الدین ڈیمریتس کے حق میں چھے فی صد سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے ہیں۔

ڈیمو کریٹک پارٹی کو پارلیمانی انتخابات میں بھی کوئی زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔اس کو 10 فی صد سے بھی کم ووٹ حاصل ہوئے ہیں ۔اگر وہ کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے دس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکی تو پھر اس کے حصے میں پارلیمان کی کوئی نشست بھی نہیں آئے گی۔ واضح رہے ترکی کا نیا آئین انتخابات کے بعد نافذ ہونے جا رہا ہے اور اس کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہو گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔