جموں و کشمیر... انتخابات کیلئے محفوظ ماحول کی فراہمی بڑا چیلنج: پولیس سربراہ
پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے چاروں مرحلوں کے لئے سیکورٹی کی تعیناتی کے پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
جموں: جموں وکشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ ریاست میں اعلان شدہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے دوران پرامن اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جس کو ریاستی پولس نے قبول کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے انتخابات کی تیاری کرلی گئی ہے اور اگلے ماہ منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے چاروں مرحلوں کے لئے سیکورٹی کی تعیناتی کے منصوبہ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
ریاست کے عبوری پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے گذشتہ شام یہاں میڈیا سے بات چیت کے دوران یہ باتیں کہیں۔ انہوں نے اپنے عبوری پولیس سربراہ ہونے پر کہا کہ قانون کے مطابق عبوری ڈی جی پی اور ڈی جی پی کے فرائض ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میرا محکمہ بے حد پسند ہے اور اُس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی ریاستی پولیس کے خلاف کوئی الٹی سیدھی بات کرتا ہے۔
دلباغ سنگھ نے اعلان شدہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات پر کہا ’ہمارے لئے انتخابات کے لئے محفوظ ماحول پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ باقی سیاسی اور انتخابی عمل کو سرکار کے مختلف ادارے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک سیکورٹی کا سوال ہے، ہمیں ماضی قریب میں بہت ساری کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ہم لوگوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوششیں کریں گے جس میں وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے‘۔ انہوں نے کہا ’رائے دہندگان کو محفوظ ماحول دینا ہمارا لئے بہت بڑا چیلنج ہے ، ہم نے اس چیلنج کو قبول کرلیا ہے۔ ہم نے اس سمت میں کچھ تیاریاں کرلی ہیں ، کچھ کرنے والے ہیں‘۔
پولیس سربراہ نے کہا کہ اگلے ماہ منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے چاروں مرحلوں کے لئے سیکورٹی کی تعیناتی کے پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا ’آپ جانتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے پوری تیاری کرلی ہے۔ چاہیے کشمیر ہو، چاہیے جموں ہو یا چاہیے لداخ ہو۔ ہم نے بلدیاتی انتخابات کے ہر مرحلے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ سیکورٹی کی تعیناتی کے پلان کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ جموں میں جس طرح کی ضرورت ہے، اس کے مطابق تیاری ہوچکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جمہوری عمل ہر ریاست کی عوام کی بہتری کے لئے ہوتا ہے‘۔ دلباغ سنگھ نے جھجر کوٹلی ۔ ککریال کے حالیہ مسلح تصادم جس میں تین عدم شناخت جنگجوؤں کو مارا گیا، سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’تفتیش کے دوران کافی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ ایک بڑا نیکسس تھا جو کچھ عرصہ سے چل رہا تھا۔ کیس کی تحقیقات این آئی اے کے حوالے کی گئی ہے، اس لئے میں اس پر زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ این آئی اے تفتیش میں لگ گئی ہے‘۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو جس میں خاکی وردی میں ملبوس کچھ لوگوں کو کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، پر کہا ’میں آپ کی وساطت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ فارسٹ کی وردی میں محکمہ فارسٹ کے لوگ ہیں۔ سری نگر میں ہم اس حوالے سے تردیدی بیان بھی جاری کرچکے ہیں۔ پولیس والے بالکل خوش ہیں۔ پولیس والوں کو اس طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وائرل ہوئی ویڈیو کے ساتھ پولیس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کشمیر پولیس واقعہ کی تحقیقات کررہی ہے‘۔
دلباغ سنگھ نے مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کے مابین تال میل کی کمی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ’میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو کسی کے خلاف ہو۔ اگر ہر سسٹم سو فیصدی درست ہوتا تو کشمیری میں ملی ٹینسی نہیں ہوتی‘۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر پولیس کا بنیادی فرض اپنے لوگوں کی سلامتی کے لئے کام کرنا ہے اور ہم اس پر کاربند ہیں۔
پولیس سربراہ نے جنوبی کشمیر میں نمودار ہونے والے دھمکی آمیز پوسٹروں پر کہا ’یہ جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی جنگجو تنظیم نے پوسٹر لگائے ہیں۔ ایسے پوسٹروں کا سامنے آنا ایک معمول ہے۔ ہم نے ابھی تک نوکری نہیں چھوڑی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نوکری کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں اپنی نوکری سے محبت ہے۔ آئندہ بھی کرتے رہیں گے‘۔
پولیس سربراہ نے کہا کہ مجھے میرا محکمہ بے حد پسند ہے اور اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی ریاستی پولیس کے خلاف کوئی الٹی سیدھی بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ’ہوسکتا ہے کہ میرا چہرہ کسی خاص آدمی کو زیادہ پسند نہ ہو۔ مگر مجھے اپنا محکمہ بہت پسند ہے۔ میرے بارے میں کوئی الٹا کہے تو پریشانی نہیں ہوتی مگر جموں وکشمیر پولیس کے بارے میں بلاوجہ کچھ الٹا کہا جائے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے‘۔
انہوں نے کہا ’لوگ مجھے کارگذار ڈی جی پی کہتے ہیں۔ میرے پاس کارگذار ڈی جی پی کا چارج ہے۔ قانون کے مطابق کارگذار ڈی جی پی اور ڈی جی پی کے فرائض ایک جیسے ہوتے ہیں‘۔ پولیس سربراہ نے میڈیا کی تنقید اور تعریف بھی کی اور کہا کہ کبھی کوئی انسان اسپتال کے جنرل وارڈ میں ہوتا ہے تو میڈیا اسے آئی سی یو میں پہنچا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا ’آپ ہمارے ساتھی رہے ہیں۔ آپ نے ہر جگہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ سماج کی صحت کتنی اچھی ہے اور کتنی خراب ہے، اس پر رپوٹنگ روزانہ کی بنیادوں پر اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا پر ہوتی ہے۔ کبھی صحت اتنی خراب نہیں ہوتی جتنی بتائی یا دکھائی جاتی ہے۔ آپ بندے کو آئی سی یو میں لے کے جاتی ہو جبکہ وہ جنرل وارڈ میں ہی ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا ’میں کشمیر میں بھی اپنے (میڈیا کے) دوستوں سے کہتا ہوں کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہوں گے مگر اتنے برے بھی نہیں ہیں جتنا آپ کہتے ہیں۔ روز برے برے کا سبق پڑھانے سے سب کو برا ہی لگتا ہے۔ تاہم میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بیشتر رپورٹنگ معیاری اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا ’مجھے کشمیر میں میڈیا کے دوستوں سے بات کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ جس دن چارج سنبھالا ، اسی دن دوڑ شروع ہوگئی اور آج دوڑتے دوڑتے جموں پہنچ گیا۔ ہم میڈیا کو ہمیشہ اپنا ساتھی اور دوست سمجھتے ہیں‘۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔