رمضان اسپیشل: فضائل شب قدر، اعتکاف اور خاندانی مسلمان...آفتاب احمد منیری

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم عبادات میں جتنی محنت آخری عشرہ میں کرتے تھے، اتنی کبھی نہیں کرتے تھے

<div class="paragraphs"><p>اعتکاف / Getty Images</p></div>

اعتکاف / Getty Images

user

آفتاب احمد منیری

یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ ہر ساعت رحمتوں و برکتوں اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات سے مزین ہے۔ ان مبارک ساعتوں میں ایمان اور احتساب نفس کے ساتھ صیام و قیام کا اہتمام کرنے والے خوش نصیب انسان کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن عبادتوں کے اس موسم بہار کا آخری عشرہ ہر لحاظ سے عظمتوں کا حامل قرار پاتا ہے، کیونکہ رمضان کریم کے اس اخیر عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ اسی محترم شب کو آخری الہامی کتاب قرآن حکیم لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کی گئی۔ اس مبارک رات کا تعارف قرآن نے کس خوبصورت انداز میں کرایا ہے...

’’یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح الامین (جبرئیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ (سورہ القدر، آیت 1 تا 5)

جب یہ رات اتنی برکت والی ہے تو مقام عبدیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس رات میں مشاغل دنیوی کو ترک کر دیا جائے اور قیام اللیل، تلاوتِ قرآن کریم اور دیگر نفلی عبادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جائے۔ ماہ عز و شرف کے اخیر عشرہ میں پائی جانے والی اس مبارک رات کے احترام کے سلسلے میں سب سے بہترین رہنمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’جب (رمضان کا) آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر بستہ ہو کر خوب عبادت کرتے۔‘‘ (البخاری، 2024)


اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم عبادات میں جتنی محنت آخری عشرہ میں کرتے تھے، اتنی کبھی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (مسلم، 1157)

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیثوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپؐ اخیر عشرہ کی تمام راتوں میں تواتر کے ساتھ شب بیداری کرتے۔ آپؐ کے اس عمل کی منطق یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اخیر عشرہ میں نازل ہونے والی شب قدر کے لیے کسی ایک رات کو مخصوص نہیں کیا ہے بلکہ اس نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ آخری عشرہ کی تمام طاق راتوں (21، 23، 25، 27، 29) میں شب قدر کو تلاش کریں۔ اپنی امت کے لیے پیکر محبت اور مودت رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں قیام فرما کر ہمیں اخروی سعادتوں کے حصول کا نسخۂ کیمیا عطا کیا ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان مقدس ترین ساعتوں میں عبادت الٰہی کو اپنا شعار بناتے ہیں اور جن کی زبانیں ہمیشہ ’’اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘ (دعائے شب قدر) کا ورد کرتی رہتی ہیں۔

ماہ رمضان کے اس آخری عشرہ میں انعام الٰہی سے سرفراز ہونے کا بہترین ذریعہ اعتکاف ہے۔ رمضان کی 20 تاریخ کی عصر سے لے کر عید کی چاند ہونے تک مسجد کے ایک مخصوص گوشہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لینا اعتکاف کہلاتا ہے۔ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ محبوب عمل تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں 10 دن کا اعتکاف فرماتے تھے۔ پھر جب وہ سال آیا جس میں آپ فوت ہوئے تو اس میں آپ نے 20 دن کا اعتکاف کیا۔‘‘

ہمیں چاہیے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبوب سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اخیر عشرہ میں اپنی اپنی مسجدوں میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام کریں۔ واضح ہو کہ اعتکاف ایک ایسی عظیم عبادت ہے جس میں انسان تمام دنیوی معاملات سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ کریم کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان ذکر الٰہی سے تر رہتی ہے اور وہ کثرت کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت سے خود کو آبرو مند کرتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ مسلم بستیوں اور محلوں میں ضعیف افراد اعتکاف کرتے ہیں۔ یہ رویہ شریعت کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ خالق کائنات کو جوانی کی عبادت پسند ہے۔ لہٰذا مسلم نوجوانوں کو اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔


حسب سابق اس بار ماہ رمضان المبارک کا اخیر عشرہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ وہ بندگانِ خدا جو اس ماہ محترم کی عظمتوں سے آشنا ہیں وہ حسب استطاعت رمضان کریم کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ لیکن صد حیف! کہ مسلمانوں کی اکثریت کا حال اس شعر کے مصداق نظر آتا ہے...

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

رمضان کریم کا اخیر عشرہ شروع ہوتے ہی مسلم مرد و خواتین کی بھیڑ مسجدوں سے بازار کی جانب منتقل ہو جاتی ہے اور خانۂ خدا کے در و دیوار غیر رمضان کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کس قدر شرم اور ندامت کی بات ہے۔ اخیر عشرہ کی جن مقدس ساعتوں کا احترام رسولؐ اور ان کے صحابہ نے نفل عبادات کی کثرت اور توبہ و استغفار کر کے کیا ہو، ان کی امت اپنی نجات اخروی سے غافل ہو کر عید کی شاپنگ اور ہوٹل بازی میں ان بیش قیمتی لمحات کو ضائع کر رہی ہے۔ ایک ایسے پرفتن دور میں ہم زندگی کے شب و روز بسر کر رہے ہیں کہ دنیا کی قومیں ہمارے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جس طرح بھوکے دسترخوان کے اوپر ٹوٹتے ہیں۔ ساری دنیا میں ہم ذلت و رسوائی کا شکار ہو رہے ہیں، باوجود اس کے کہ اپنا احتساب نہیں کرتے۔ ہم اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے اور نہ ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے اخیر عشرہ کے ان بیش قیمتی لمحات کو غنیمت جانیے اور اللہ سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ استوار کیجیے۔ استغفار کی کثرت کیجیے اور ندامت کے ان آنسوؤں سے اللہ کی رحمت کے امیدوار بن جائیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔