گوا: ساوَنت نے 2 بجے رات میں لیا وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف، کانگریس نے بتایا جمہوریت کا قتل
گوا کانگریس لیڈر سنیل کاوٹھنکر کا کہنا ہے کہ ’’ہم گوا کی گورنر مردولا سنہا کی غیر جمہوری کارروائی کی پرزور مذمت کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے بڑی پارٹی کو حکومت سازی کی اجازت نہیں دی۔‘‘
ایک طرف گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کی موت کا ماتم منایا جا رہا تھا اور دوسری طرف بی جے پی نے گوا کے اقتدار پر ہر حال میں قابض رہنے کے لیے جو کوششیں جاری رکھی تھیں وہ 18 مارچ کی دیر رات 2 بجے (یعنی 19 مارچ کی صبح) اس وقت کامیاب ہو گئیں جب پارٹی لیڈر پرمود ساونت نے وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لے لیا۔ ان کے ساتھ دو نائب وزیر اعلیٰ اور کچھ دیگر لیڈروں نے بھی اپنے عہدہ کا حلف دیر رات لیا۔ اس پورے واقعہ کی گوا کانگریس نے پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس عمل کو جمہوریت کا قتل قرار دیا ہے۔
گوا میں پیر کے روز پورے دن سیاسی گہما گہمی کے درمیان منوہر پاریکر کے قابل اعتماد اور آر ایس ایس کے قریبی پرمود ساونت کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی بات پیر کی دیر شام ہی سامنے آ گئی تھی۔ اس سے قبل ساونت گوا اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ پرمود ساونت کی حکومت میں معاون مہاراشٹروادی گومانتک پارٹی کے سدھین دھولیکر اور گوا فارورڈ پارٹی کے وجے سردیسائی کو نائب وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف دلایا گیا۔ اس کے علاوہ تینوں پارٹی اور آزاد رکن اسمبلی سمیت 9 دیگر اراکین نے بھی وزارتی عہدہ کا حلف لیا۔ فی الحال گوا میں اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مائیکل لوبو اس عہدہ کے لیے انتخاب ہونے تک اسپیکر ہوں گے۔
اس درمیان گوا کانگریس لیڈر سنیل کاوٹھنکر نے اس پورے عمل کو ہندوستانی جمہوریت کا قتل قرار دیا اور ساتھ ہی ریاستی گورنر مردولا سنہا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم گوا کی گورنر مردولا سنہا کی غیر جمہوری کارروائی کی پرزور مذمت کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے بڑی پارٹی کو حکومت سازی کی اجازت نہیں دی۔ ان کا یہ قدم افسوسناک ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو جوڑ توڑ کرنے کی آزادی دی حالانکہ ان کے پاس حکومت سازی کے لیے نمبر نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی سنیل کاوٹھنکر نے یہ بھی کہا کہ ’’گوا کی گورنر نے جو کچھ کیا اس کے لیے ہم صدر جمہوریہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متعصب مردولا سنہا کو عہدہ سے ہٹایا جائے اور فوری طور پر کانگریس کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ کے لیے گوا میں بی جے پی اور اس کی معاون پارٹیوں میں کافی کھینچ تان کا معاملہ چل رہا تھا اور امت شاہ و نتن گڈکری جیسے سینئر بی جے پی لیڈران لگاتار سبھی سے بات چیت کر رہے تھے۔ کافی جدوجہد کے بعد شاہ اور گڈکری ساتھی پارٹیوں کو منانے میں کامیاب ہوئے، لیکن انھیں دونوں ہی ساتھی پارٹیوں کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ دینا پڑا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Mar 2019, 9:09 AM