’کہیں بچے کا گردہ بیچنا نہ پڑجائے‘

قرضوں پر چلنے والے ملک اور افراد غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے تیس لاکھ لوگ ہیں، جو بعض اوقات اس غلامی سے نکلنے کے لیے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

’کہیں بچے کا گردہ بیچنا نہ پڑجائے‘
’کہیں بچے کا گردہ بیچنا نہ پڑجائے‘
user

ڈی. ڈبلیو

اپنی صحافتی کام کے دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا: طاقتور، کمزور، امیر، عام، خاص، سچے، جھوٹے وغیرہ۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ملے جن کی کہانیاں ذہن پر نقش ہوگئیں۔ انہی میں سے ایک عنصر علی ہے۔

عنصر سے میری ملاقات سرگودھے کی تحصیل کوٹ مومن میں ایک رپوٹنگ اسائنمنٹ کے دوران ہوئی۔ پنجاب کا یہ زرخیز علاقہ مالٹوں، نارنگیوں اور کینو کی پیداور کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔


عنصر کی عمر تیس سے پینتیس سال ہوگی (وہ نہ تو اپنی سہی عمر جانتا ہے اور نہ ہی پڑھ لکھ سکتا ہے)۔ کچھ سال پہلے اس کا موٹر سائیکل کے ساتھ حادثہ ہوگیا، جس کے بعد سے وہ ذرا لنگڑا کر چلتا ہے۔ عنصر اور اس کی بیوی ایک زمیندار کے پاس روزانہ سولہ سے سترہ گھنٹے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ عنصر باہر کھیتوں میں زمین اور مال مویشی سنبھالتا ہے اور اس کی بیوی سارا دن زمیندار کے گھر میں کام کرتی ہے۔

دونوں کو ماہانہ تین چار ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس تنخواہ میں ایک انسان کا گذر بسر بہت مشکل ہے۔ عنصر کو دو وقت کی روٹی کے لیے بار بار زمیندار سے قرض لینا پڑتا ہے۔ عنصر کے مطابق یہ زمیندار کوئی ظالم انسان نہیں۔ وہ مار پیٹ نہیں کرتا اور اگر غصہ آ بھی جائے تو ذرا ذرا سی بات پر گالم گلوچ نہیں کرتا۔ عنصر کے مالک نے اسے اپنی زمین پر دو کمروں کا گھر بھی دے رکھا ہے۔


جب کبھی علاج معالجے کی ضرورت پڑ جائے، خوشی یا غم کا موقع ہو تو وہی ان کے کام آتا ہے اور مزید رقم دے دیتا ہے۔ لیکن ہوتا وہ قرض ہی ہے، جس کا ریکارڈ زمیندار اپنے پاس رکھتا ہے۔ عنصر صرف کاغذات پر انگوٹھا لگا دیتا ہے۔

کچھ سال پہلے جب یہ قرض زیادہ بڑھ گیا تو زمیندار کی طرف سے دباؤ بھی بڑھ گیا۔ عنصر کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، تو اُس نے اپنا ایک گردہ فروخت کر ڈالا۔ مقامی ایجنٹ اور ہسپتال کے عملے نے اپنے بیس ہزار روپے کاٹ کر اُسے ایک لاکھ روپے پکڑا دیے۔ عنصر کا قرضہ کم ہوا، لیکن زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔


چند برسوں کے اندر عنصر پر زمیندار کا قرضہ پھر چڑھ گیا تو اس بار اس نے اپنی بیوی کو گردہ بیچنے پر آمادہ کر لیا۔ ایک بار پھر انہوں نے چین کا سانس لیا، لیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا۔ ان تمام برسوں میں اس کے یہاں آٹھ پچے پیدا ہوئے۔ عنصر کے پاس خود دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی تو ایسے میں انہوں نے اتنے بچے کیوں پیدا کیے؟

''یہ تو اوپر والے کی دین ہے،‘‘ اس نے کھسیانے انداز میں کہا۔ مجھے اس پر ترس آیا اور کچھ غصہ بھی۔ میں نے پوچھا، ''کبھی خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا سُنا ہے؟‘‘ تو اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔


سرگودھا کوئی سندھ یا بلوچستان کا دور افتادہ علاقہ نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاہور۔ اسلام آباد موٹروے سے متصل ایک تحصیل ہے۔ دل میں سوچا کہ اگر یہاں تک بھی خاندانی منصوبہ بندی والے نہیں پہنچ پائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں آبادی میں تیزی سے کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔

بعض لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ بچے پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے کیونکہ اس سے دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اوپر والے نے ہر جاندار شہ تک رزق پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو ملک میں عنصر علی جیسے مقروض لیکن محنتی لوگ اور اس کے بچے فاقے کاٹنے پر کیوں مجبور ہیں؟


عنصر کا کوئی بھی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ وہ خود ساری زندگی زمیندار کا مقروض رہا ہے۔ کیا اس کے بچوں کا بھی یہی مستقبل ہے؟ عنصر کا کہنا ہے کہ اسے کل کا پتہ نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کر لے غلامی کی اس زندگی سے شاید کبھی نہ نکل پائے۔

اس دوران ملک میں مختلف حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن اس کا عنصر کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ فوجی ہو یا سولین ادوار، ملک کے سیاسی نظام پر طاقتور وڈیرے، زمیندار اور چودہری حاوی ہیں۔ زرعی اصلاحات کسی کے بھی ایجنڈے پر نہیں۔ ویسے بھی اس نظام سے مستفید ہونے والا طبقہ بھلا کیوں اسے ٹھیک کرنے لگا؟


پاکستان میں قرض کی ان دیکھی زنجیروں میں کتنے لوگ غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، اس پر کوئی باوثوق سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ لیکن آسٹریلیا میں قائم عالمی تنظیم 'گلوبل سلیوری انڈیکس‘ کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد تیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

ان خاندانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کے شعبے سے وابستہ ہے جبکہ اینٹیں بنانے والے بھٹہ مزدور اور قالین کے صنعت سے وابستہ بچے اور خواتین بھی جدید دور میں انسانی غلامی کی مثال ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان تک محدود نہیں۔ بھارت، نیپال، بنگلادیش اور افغانستان میں بھی لاکھوں خاندان اس استحصالی نظام کا شکار ہیں۔


قرض اتارنے کے لیے عنصر علی نے اپنا اور اپنی بیوی کے گردے تو بیچ دیے لیکن جوں جوں قرض دوبارہ بڑھ رہا ہے، اب وہ کیا کرے گا؟

اس نے کہا، ''کوئی اور راستہ نہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرا یہ چھوٹا بچہ کچھ بڑا ہو جائے تو کہیں مجھے اس کا گردہ نہ بیچنا پڑجائے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔