ہندوستان میں ہندی زبان’مسلط‘ کرنے کی مخالفت
بی جے پی کی قیادت میں قائم حکومت پورے ملک میں طلبہ پر ہندی زبان کو نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس مبینہ پلان کے خلاف کئی ریاستوں میں احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے۔
اسکول کے طلبا کو ہندی لازمی طور پر پڑھانے کی وفاقی حکومت کی تجویز پر غیرہندی ریاستوں بالخصوص تمل ناڈو، تلنگانہ، کرناٹک اور مغربی بنگال کی طرف سے سخت مخالفت ہورہی ہے۔ تقریباً تمام اپویشن پارٹیوں نیز بی جے پی کی حلیف تمل ناڈو کی انا ڈی ایم کے اور پی ایم کے پارٹی نے بھی اس تجویز کو رد کر دیا ہے۔
مودی حکومت نے گذشتہ ہفتہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ جاری کیا تھا۔ جس کے مطابق غیر ہندی علاقوں میں درجہ ششم سے طلبہ کے لئے اس ریاست کی علاقائی زبان اور انگلش کے علاوہ ہندی سیکھنا لازمی قرا ر دیا گیا تھا۔ تمل ناڈو ہندی زبان کو پڑھانے کی کوششوں کی مسلسل مخالفت کرتا رہا ہے۔ سن 1965 میں جب ہندی کو ملک کی واحد سرکاری زبان بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی تب سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے تمل ناڈو میں ہوئے تھے۔ ان مظاہروں میں غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تمل ناڈو کی اپوزیشن جماعت ڈی ایم کے نے ہندی نافذ کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ ڈی ایم کے راجیہ سبھا کے رکن تروچی سیوا نے نئی دہلی حکومت کو شدید مظاہروں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”وفاقی حکومت آگے سے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے‘‘۔ جنوبی بھارت کی فلموں کے مشہور اداکار کمل ہاسن نے ٹوئٹ کرکے کہا”میری رائے میں ہندی زبان کسی پر بھی مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری ڈی راجہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”مودی حکومت سہ لسانی فارمولہ کے نام پر ہندی کو نافذ کرنے کی ناپاک کوشش کررہی ہے۔
ہنگامہ تیز ہوتا دیکھ نریندر مودی حکومت نے ایک طرف جہاں معاملے کو سرد کرنے کے لئے جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے وزرا وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن کو میدان میں اتارا۔ جنہوں نے ٹوئٹ کرکے لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس مسودے پر عمل درآمد سے پہلے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ انسانی وسائل کے فروغ کے وزیر رمیش پوکھریال نے ٹوئٹ کرکے کہا ''حکومت کا کسی پر کوئی زبان تھوپنے کا ارادہ نہیں ہے اور مام بھارتی زبانوں کی ترقی کے لئے کام کررہے ہیں۔“
مودی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا ترمیم شدہ مسودہ بھی جاری کیا جس میں ہندی کو اختیاری زبان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلبہ کو اپنی منتخب زبان پڑھانے والا ٹیچر دستیاب نہیں ہوتا۔ جس کی سب سے واضح اور افسوس ناک مثال اترپردیش ہے۔ جہاں اردو کو یوں تو دوسری حکومتی زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن حکومتی اسکولوں میں اردو کا نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔
بھارت میں زبان کا مسئلہ نہایت حساس مسئلہ ہے۔ یہاں زبانیں بھی سیاست میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ ماضی میں بھی حکومتیں ہندی کو قومی زبان بنانے کی متعدد کوششیں کرچکی ہیں، لیکن تمام کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ہندی راشٹربھاشا(قومی زبان) کی جگہ راجیہ بھاشا(حکومتی زبان)ہے۔ ہندی کے ساتھ ساتھ دیگر بائیس زبانیں بھی بھارت کی سرکاری زبانیں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔