افغانستان کا مستقبل: ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتحال
طالبان رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ڈیل کرنے کے خواہشمند تھے لیکن امریکا کی جانب سے طالبان کے مطالبات نہ ماننے پر مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑا۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق طالبان مذاکرات کاروں کا طالبان شوریٰ کے اراکین کے ساتھ اس بات پر اتفاق نہیں تھا کہ کیا انہیں کیمپ ڈیوڈ جانا چاہیے یا نہیں۔ اس مذاکراتی عمل کے بارے میں معلومات رکھنے والے طالبان کا کہنا ہے کہ شوریٰ کیمپ ڈیوڈ جانے پر متفق نہیں تھی۔
طالبان ایک سال سے امریکا کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحا میں مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھے۔ دوحا میں طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے گزشتہ اگست میں طالبان مذاکرات کاروں کو کیمپ ڈیوڈ میں مدعو کیا تھا۔ طالبان نے اس دعوت کو قبول کیا جس کے بعد مذاکراتی عمل شروع ہو گیا اور دونوں جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ فریقین کسی معاہدے کے قریب پہنچنے والے ہیں۔ تاہم طالبان کا مطالبہ تھا کہ اس معاہدے کے بارے میں اعلان قطر کی جانب سے کیا جائے ساتھ ہی معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں پاکستان، روس اور چین کے علاوہ کئی دیگر وزرائے خارجہ کی موجود ہونا چاہیے۔
یہ طالبان اور امریکا کے درمیان واحد موضوع نہیں ہے جس پر دونوں فریقوں میں اتفاق نہیں تھا۔ کچھ طالبان رہنماؤں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کئی ماہ قبل شوریٰ نے ملا عبدالغنی برادر کی اس پیشکش کو رد کر دیا تھا جس کے تحت انہوں نے امریکا کو 14 ماہ کا وقت دیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے 14 ہزار فوجیوں کو نکال لے۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کے وفد کی سربراہی ملا برادر ہی کر رہے تھے۔ شوریٰ نے برادر کو بتایا کہ وہ اس دورانیے سے متفق نہیں اور یہ کہ وہ شوریٰ کی مرضی کے بغیر تنہا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ واشنگٹن میں ولسن سنٹر کے نائب ڈائریکٹر مائیکل کوگلمن کے مطابق، ''سینیئر طالبان رہنما ان مذاکرات کے لیے کافی مدگار ثابت ہوئے۔‘‘ مائیکل کوگلمن کہتے ہیں کہ طالبان میں بہت اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے مذاکراتی عمل کے دوران ایک مشترکہ موقف پیش کیا تھا۔
امریکا میں انسٹیٹیوٹ آف پیس کے انڈریو ولڈر کا کہنا ہے، ''مجھے خدشہ ہے کہ اگر مذاکراتی عمل کا آغاز دوبارہ نہیں ہوتا تو زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں قیام امن کے لیے جو علاقائی اتفاق رائے کی راہ ہموار کی ہے وہ ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ ولڈر مزید کہتے ہیں، ''اگر پاکستان کو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا جلد بازی میں افغانستان سے اپنے فوجیوں کا نکالتا ہے تو پھر وہ افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے طالبان کے لیے اپنی حمایت میں مزید اضافہ کر سکتا ہے تاکہ وہاں بھارت کا اثر و رسوخ کم رہے۔‘‘
دوسری جانب طالبان افغانستان میں عام شہریوں پر اپنے حملوں پر شرمندہ نظر نہیں آتے۔ شاہین کا کہنا ہےکہ امریکا نے بھی اپنی عسکری آپریشنز کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اے پی کی رپورٹ کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فریق اب بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ شاہین کا کہنا ہے، ''ہم نے امریکی اہلکاروں سے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے بھی ہم سے رابطہ کیا ہے۔ ہم نے ان سے صدر ٹرمپ کے فیصلے کے حوالے سے وضاحت مانگی ہے اور اب ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔