ملک خواتین کا تحفظ چاہتا ہے اور بھاگوت الاپ رہے ہیں مندر کا راگ

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ رام مندر جس مقام پر تھا وہیں تعمیر کرایا جائے گا ورنہ ہندوستانی ثقافت کی جڑیں ختم ہو جائیں گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اس وقت پورا ملک کٹھوعہ ، اُنّاؤ، سورت اور روہتک کی بچیوں کی تکلیف محسوس کر رہا ہے اور آنسو بہا رہا ہے، ان کو انصاف دلانے کے لیے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر رہا ہے ،بچیوں کے ساتھ کی جا رہی درندگی اور غیر محفوظ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جنگ لڑ رہا ہے لیکن آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت رام مندر کا رونا رو رہے ہیں۔ انھوں نے نہ ہی اب تک کٹھوعہ اجتماعی عصمت دری اور قتل معاملے پر ایک لفظ بولا ہے نہ ہی اُنّاؤ متاثرہ نابالغ لڑکی کے حق میں کوئی آواز اٹھائی ہے اور نہ ہی خواتین پر ہو رہے مظالم کے تئیں کوئی سنجیدہ بیان دیا ہے۔ اتوار کے روز جب انھیں لوگوں سے خطاب کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے سنجیدہ اور حساس موضوعات کو درکنار کرتے ہوئے رام مندر کا راگ الاپا۔ ’’ہم ایودھیا میں ہی رام مندر بنائیں گے۔ رام مندر اگر پھر سے وہیں پر نہیں بنایا گیا تو ہماری ثقافت کی جڑیں کٹ جائیں گی۔‘‘

مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے دہانو میں ’وِراٹ ہندو سمیلن‘ سے خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے رام مندر دوبارہ بنانے کی بات کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان میں مسلم طبقہ نے رام مندر نہیں توڑا۔ ہندوستانی شہری ایسی چیزیں نہیں کر سکتے۔ ہندوستانیوں کا حوصلہ توڑنے کے لیے بیرون ملکی طاقتوں نے مندروں کو توڑا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’لیکن آج ہم آزاد ہیں۔ ہمیں اسے پھر سے بنانے کا حق ہے جسے ختم کیا گیا تھا، کیونکہ وہ صرف مندر نہیں تھے بلکہ ہماری پہچان تھے۔‘‘ اپنی تقریر کے دوران آر ایس ایس سربراہ نے ملک میں ہو رہے نسلی تشدد کے واقعات کا بھی تذکرہ کیا لیکن اس کے لیے انھوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رام نومی کے موقع پر ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنان کے ملوث ہونے کے تعلق سے انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔

بہر حال، آر ایس ایس سربراہ کا رام مندر پر بیان دینا، اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف زہر اگلنا اور ملک میں بچیوں کی حفاظت پر کچھ نہ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتے۔ ویسے بھی موہن بھاگوت عورتوں کو گھر سنبھالنے والی شئے بتا چکے ہیں۔ وہ میاں بیوی کے رشتے کو ایک معاہدہ اور عورت کو گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بتاتے رہے ہیں اورایک موقع پر عصمت دری سے متعلق انھوں نے یہ بھی بیان دیا تھا کہ یہ مغربی تہذیب کا اثر ہے اس لیے شہری علاقوں میں زیادہ ہوتے ہیں اور گاؤں میں کم۔ لیکن آج خواتین پر جو مظالم ہو رہے ہیں وہ گاؤں سے ہی زیادہ سامنے آرہے ہیں، چاہے وہ کٹھوعہ ہو، اُنّاؤ ہو یا پھر روہتک وغیرہ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Apr 2018, 3:22 PM