ہندو نیشنلسٹ گروپ سے اقلیتی طبقہ خوفزدہ، امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ
رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ حکومت ہند نےعدالت عظمیٰ میں مسلم تعلیمی اداروں کے اقلیتی درجہ کو چیلنج پیش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگر ان کا اقلیتی درجہ ختم ہوا تو ان کی خود مختاری بھی ختم ہو جائے گی۔
امریکی وزارت خارجہ نے منگل کے روز بین الاقوامی مذہبی آزادی پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2017 کے دوران ہندو نیشنلسٹ گروپ کے تشدد کے سبب اقلیتی طبقہ نے خود کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کیا۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکی کانگریس کے ذریعہ مجاز یافتہ 2017 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی پر مبنی سالانہ رپورٹ جاری کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے چند ایک بار تشدد کے واقعات کے خلاف بولا، لیکن مقامی لیڈروں نے شاید ہی ایسا کیا۔ اور کئی بار تو ایسے بیانات دیے گئے جن کے پش پست مقصد تشدد کو نظر انداز کرنا معلوم ہوتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ میں واضح لفظوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’سول سوسائٹی کے لوگوں اور مذہبی اقلیتوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں مذہبی اقلیتی طبقات نے غیر ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف تشدد میں شامل ہندو نیشنلسٹ گروپوں کے سبب خود کو کافی غیر محفوظ محسوس کیا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ’’افسران نے اکثر و بیشتر گئوکشی یا غیر قانونی اسمگلنگ یا گائے کے گوشت کا استعمال کرنے سے متعلق مشتبہ لوگوں (زیادہ تر مسلمانوں) پر گئو رکشکوں کے تشدد کے خلاف معاملے درج نہیں کیے۔‘‘
اس رپورٹ میں اقلیتی اداروں سے متعلق بھی باتیں کی گئی ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’حکومت نے عدالت عظمیٰ میں مسلم تعلیمی اداروں کے اقلیتی درجہ کو چیلنج پیش کرنا جاری رکھا۔ اقلیتی درجہ کی وجہ سے ان اداروں کو ملازمین کی تقرری اور نصاب سے متعلق فیصلوں میں خودمختاری حاصل ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے ایک حصہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 13 جولائی کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بیف تاجروں، بیف کے صارفین اور ڈیری کسانوں پر بھیڑ کے ذریعہ کیے گئے قاتلانہ حملے کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گئو رکشا کے نام پر لوگوں کی جان لینا ناقابل قبول ہے۔ اس میں کہا گیا کہ 7 اگست کو اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے کہا تھا کہ ملک میں دلت، مسلمان اور عیسائی خود کو کافی غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
عیسائیوں پر مظالم سے متعلق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’اوپن ڈورس‘ کے مقامی شریک کاروں کے ذریعہ حاصل اعداد و شمار کے مطابق سال کے پہلے چھ مہینے میں ہی 410 ایسے واقعات پیش آئے جن میں عیسائیوں پر ظلم ہوا، ڈرایا دھمکایا گیا یا مذہب کے نام پر ان پر حملہ کیا گیا، جب کہ 2016 کے پورے سال میں اس طرح کے کل 441 واقعات پیش آئے تھے۔ گویا کہ 2017 کے نصف حصے میں ہی عیسائیوں پر مظالم کے تقریباً اتنے واقعات پیش آئے جتنے کہ 2016 کے پورے سال میں ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 میں جنوری سے لے کر مئی کے درمیان وزارت داخلہ نے مذہبی طبقات کے درمیان 296 تصادم ہونے کی اطلاع دی۔ تصادم میں 44 لوگ مارے گئے اور 892 زخمی ہوئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔