صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد چین اور ترکی میں قید

صحافیوں کو رپورٹنگ میں سب سے زیادہ مشکلات چین اور ترکی میں درپیش ہیں۔ یہ بات صحافیوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کمیٹی برائے تحفظِ جرنلسٹس نے ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔

صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد چین اور ترکی میں قید
صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد چین اور ترکی میں قید
user

ڈی. ڈبلیو

امریکی شہر نیویارک میں قائم صحافیوں کی تنظیم نے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی چین کی جیلوں میں ہیں۔ سن 2018 میں یہ تعداد 47 تھی۔ رواں برس ایک صحافی اور گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس طرح اب چین میں زیر حراست جرنلسٹس کی تعداد اڑتالیس ہو گئی ہے۔

گرفتار ہونے والے صحافیوں میں سے بیشتر کو ریاست کے خلاف کام کرنے اور غلط خبریں دینے کے ریاستی الزامات کا سامنا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ ترکی، سعودی عرب، مصر، اریٹیریا، ویتنام اور ایران ایسے ممالک ہیں، جہاں کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں رکھا گیا ہے۔


اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ چین کے بعد دوسرا ملک ترکی ہے جہاں تقریباً چار درجن صحافیوں کو پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا ہے۔ ترکی میں سینتالیس صحافی مقید ہیں۔ گزشتہ برس سب سے زیادہ صحافی ترکی کی جیلوں میں تھے۔ سن 2018 میں ترک حکومت نے اڑسٹھ صحافیوں کو حراست میں لیا تھا۔ ان میں سے بعض کو ترک عدالتوں سے ضمانتوں پر رہائی حاصل ہو چکی ہے۔

کمیٹی برائے تحفظِ جرنلسٹس نے یہ بھی بتایا کہ ترکی میں درجنوں صحافیوں کو اس وقت بھی مقدمات کا سامنا ہے۔ ایسا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ضمانتوں پر رہا صحافیوں کو عدالت کی جانب سے سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ترک عدالتوں نے کئی صحافیوں کو اُن کی عدم موجودگی میں سزائیں سنا رکھی ہیں۔ یہ صحافی غیر ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔


صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے مطابق جن ممالک میں مطلق العنان حکمران یا آمریت والی حکومتیں قائم ہیں، وہاں صحافیوں کو حق بات یا صحیح رپورٹنگ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک میں صحافیوں کی گرفتاریاں بڑھ رہی ہیں۔ سعودی عرب اور مصر میں گرفتار صحافیوں کی تعداد چھبیس چھبیس ہے۔ سعودی عرب میں کم از کم اٹھارہ صحافیوں کے مقدمات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔

صحافیوں کی تنظیم کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے چین اور ترکی میں سب سے زیادہ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ چینی صدر شی جنگ پنگ کے دور میں ذرائع ابلاغ کو محدود کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، وہ ابھی تک جاری ہے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت بھی آزاد صحافت اور حکومتی اقدامات پر تنقید برداشت نہیں کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔