گروگرام: ’ساجھا افطار پارٹی‘ میں مختلف مذاہب کی مشہور ہستیوں کی شرکت

’گڑگاؤں ناگرک ایکتا منچ‘ کی جانب سے گڑگاؤں کی تاریخ میں پہلی بار ’ساجھا افطار پارٹی‘ کا اہتمام ہوا جس میں شبنم ہاشمی، راہل رائے، ڈویژنل کمشنر اور انکت سکسینہ کے والد یشپال سکسینہ وغیرہ شریک ہوئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

گروگرام کی تاریخ میں پہلی بار 10 جون یعنی اتوار کو ’ساجھا افطار پارٹی‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔ ’گڑگاؤں ناگرک ایکتا منچ‘ کی جانب سے یہ بین مذاہب افطار پارٹی ایسے ماحول میں منعقد کی گئی جب گزشتہ کچھ مہینوں سے کچھ شدت پسند عناصر مسجد سے باہر نماز جمعہ ادا کرنے کو لے کر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں اور ریاست کے وزیر اعلیٰ اپنے بیانات میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ اس افطار پارٹی کی خوش آئند بات یہ رہی کہ اس میں ہر مذہب، ہر مکتبہ فکر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے آپسی محبت و بھائی چارے کا پیغام دیا۔

افطار پارٹی میں شامل سماجی کارکن ہرش مندر 
افطار پارٹی میں شامل سماجی کارکن ہرش مندر 

گروگرام کے سیکٹر 27 واقع ہدیٰ کمیونٹی سنٹر میں منعقد اس افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے حقوق انسانی کے لیے لڑنے والی سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے کہا کہ ’’یہ صرف کسی مذہب کے لیے نہیں ہے بلکہ ملک اور آئین پر منڈلا رہے خطرے کے لیے ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’2019 کا سال کافی اہمیت کا حامل ہوگا جب یہ فیصلہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت آگے بھی برقرار رہے گی یا پھر فسطائیت کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔‘‘ شبنم ہاشمی نے اس افطار پارٹی کو مقامی لوگوں میں آپسی محبت کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب پبلک پلیس پر نماز ادا کرنے پر تنازعہ ہو رہا ہے، ایسے وقت میں لوگوں کی بھائی چارگی اچھی علامت ہے۔‘‘ اس موقع پر انھوں نے مختلف نظریات اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی کی بھی تعریف کی۔

’گڑگاؤں ناگرک ایکتا منچ‘ کی طرف سے افطار پارٹی میں اہم کردار نبھانے والے فلمساز راہل رائے نے افطار پارٹی میں شامل لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’نمازِ جمعہ سے متعلق تنازعہ کے بعد علاقے کے شہرت یافتہ 90 اشخاص ایک ساتھ آئے اور نفرت کی طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے اس زہر کو پھیلنے سے روکا۔ ’ساجھا افطار‘ اسی راستے کی طرف ایک قدم ہے۔‘‘ انھوں نے گروگرام میں ہندو-مسلم بھائی چارے کی سنہری تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس شہر نے 1947 سے قبل ایک تاریخ رقم کی تھی جب یہاں 20 سے 24 فیصد مسلم آبادی تھی۔ اس گروگرام نے 1857 میں ایک اور تاریخ رقم کی تھی جب دو مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر ملک کی آزادی کے لیے لڑے تھے۔ ایک برطانوی افسر نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ دو الگ مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔‘‘

افطار پارٹی میں انکت سکسینہ کے والد یشپال سکسینہ کی موجودگی بھی قابل ذکر رہی ہے۔ الگ مذہب کی لڑکی سے محبت کرنے کے سبب تنگ ذہن لوگوں کے ذریعہ ہلاک کر دیے گئے انکت سکسینہ کے والد نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے اور آپسی بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لیے خود بھی افطار پارٹی کی تھی اور اتوار کو ہوئے ’ساجھا افطار‘ میں بھی ہندو-مسلم بھائی چارے کو فروغ دینے کی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس طرح کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔‘‘ تقریب میں سماجی کارکن ہرش مندر، گروگرام کے ڈویژنل کمشنر ڈی. سریش نے بھی شرکت کی اور ان کے علاوہ بھی کئی سیاسی و سماجی ہستیاں موجود تھیں جنھوں نے بیک آواز ملک میں امن، خیر سگالی اور بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔