جھاڑکھنڈ کے عوام نے وزیر اعظم کی قوم پرستی کو مسترد کر دیا
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو مہاراشٹر کے بعد اب مشرقی ریاست جھاڑکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انتخابات کے نتائج اور رجحانات کے مطابق81 رکنی ریاستی اسمبلی میں کانگریس، جھاڑکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) اتحاد کو 47 سیٹیں حاصل ہو رہی ہیں جب کہ حکمراں بی جے پی 25 سیٹوں تک سمٹ گئی ہے۔ بی جے پی کے وزیر اعلی رگھوبر داس نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جھاڑکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے یہ بات زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ عوام نے مقامی مسائل کے بجائے ملکی معاملات کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی وزیر اعظم مودی کی پالیسی مسترد کر دی ہے۔ کانگریس اتحاد نے جہاں قبائلیوں کے مسائل نیز جنگل اور ان کی زمین سے متعلق معاملات کو زور شور سے اٹھایا، وہیں بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے، بابری مسجد معاملہ، تین طلاق اور شہریت ترمیمی قانون جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز رکھی۔
اقتصاد ی سست رفتاری شکست کی وجہ
سیاسی تجزیہ کار اور انگلش جریدہ ہارڈ نیوز کے ایڈیٹر سنجے کپور نے جھاڑکھنڈ الیکشن کے نتائج کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس الیکشن میں بی جے پی کی شکست کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ عوام اقتصادی سست رفتاری سے بہت زیاہ پریشان ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر دیہی اور قبائلی علاقوں کے لوگوں پر پڑا ہے جو کہ عام طور پر شہری علاقوں میں لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا ہے۔"
سنجے کپور کا مزید کہنا تھا، ''سن دو ہزار چودہ کے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کا نہایت غیر معمولی طور پر عروج ہوا تھا اور وہ بہت سی ریاستوں میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی لیکن دو ہزار انیس میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں مہاراشٹر، ہریانہ اور جھاڑکھنڈ میں ہار گئی۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بہت کم وقت میں ہی بی جے پی کے حوالے سے ووٹروں کی ترجیح بدل ہو گئی ہے۔"
'غرور کا سر نیچا‘
کانگریس کے سینئر رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے جھاڑکھنڈ اسمبلی کے نتائج پر اپنے ابتدائی تبصرے میں کہا کہ یہ بی جے پی کے گھمنڈ اور غرور کا انجام ہے، '' پچھلے چھ برسوں کے دوران بی جے پی کی حکومت میں عوام بری طرح پریشان ہیں۔ مودی حکومت نے متنازعہ قوانین لا کر ملک کو مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے جتنے وعدے کئے تھے، ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا اور تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔‘‘
ڈبل انجن تھیوری ناکام
جھاڑکھنڈ الیکشن کے نتائج نے وزیر اعظم مودی کی ڈبل انجن کی تھیوری کو بھی غلط ثابت کر دیا۔ 2014ء میں ملک کی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ ڈبل انجن کی تھیوری یعنی مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکومت پر زور دیتے رہے ہیں۔ وہ اسے ترقی کا اہم ذریعہ بتاتے اور غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں پر ترقی کی راہ میں رخنہ ڈالنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ ابتدا میں عوام نے ان کی اس تھیوری کو پسند بھی کیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ 2014ء کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اکیس ریاستوں میں اپنا پرچم لہرانے میں کامیاب ہو گئی جب کہ اس سے پہلے صرف سات ریاستوں میں تنہا اور دو ریاستوں میں حلیف جماعتوں کے مل کر حکومت میں تھی۔
2018ء سے شکست کا آغاز
سال 2018ء کا آغاز تو بی جے پی کے لیے اچھا رہا اور پارٹی نے تریپورا میں حکومت بنا کر نئی تاریخ رقم کی لیکن اس کے بعد سے پارٹی کے لیے بری خبریں آنے لگیں۔ مئی 2018ء میں کرناٹک میں اسمبلی انتخابات میں وہ حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ ہندی بیلٹ والی تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اقتدار سے باہر ہو گئی اور وہاں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔
سن 2019ء میں اب تک سات ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ان میں بی جے پی کو چار ریاستوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ جھاڑکھنڈ میں آج کی شکست کے بعد بی جے پی مہاراشٹر سمیت دو اہم ریاستیں بھی گنوا چکی ہے۔ یعنی ملک کے نقشے پر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور ایسا اس وقت ہے، جب مرکز میں بی جے پی 2014ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیٹیں حاصل کر کے اقتدار میں ہے اور نریندر مودی کے ہاتھوں میں اقتدار کی کمان ہے، جنہیں کچھ لوگ موجودہ سیاست کا سب سے بڑا فاتح قرار دیتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Dec 2019, 8:00 AM