’یہ ہندو گاؤں ہے یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں‘!
اس گاؤں میں تمام لوگ ہندو ہیں، اس لئے یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے آنے اور اپنے مذہب کی تشہیر کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ خبر تو آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوگی کہ کچھ محلوں اور علاقوں میں ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کرائے پر مکان نہیں دیتے یا ان کو مکان نہیں بیچتے مگر یہ شائد آ پ نے نہیں سنا ہو گا کہ کسی گاؤں میں ایک مذہب کے افراد کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو اس میں داخلے یا رہنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ملک کے کچھ لوگ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب یہ نہ ہو سکا تو آندھرا پردیش میں ایک گاؤں کو ہی ’ہندو گاؤں ‘ قرار دے دیا گیا ہے جہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ گاؤں کے باہر ایک بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے گاؤں میں داخلے پر انتباہ جاری کیا گیا ہے۔
معاملہ آندھرا پردیش کے کڑپا ضلع کے مئد و کر علاقہ کے کیسالنگایاپلی گاؤں کا ہے۔ اس گاؤں میں 250 خاندان رہتے ہیں اور وہ تمام ہندو دھرم سے وابستہ ہیں۔ لہذا گاؤں کے لوگوں نے اتفاق رائے سے اس گاؤں کو ہندو گاؤں قرار دیا ہے اور گاؤں میں جانے والی سڑک کے دونوں کناروں پر بھگوا پرچم لگا دئے ہیں۔ گاؤں کے باہر ایک بورڈ بھی نصب کیا گیا ہے جس پرلکھا ہے ’اس گاؤں میں تمام لوگ ہندو ہیں، اس لئے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو یہاں پر آنے اور اپنے مذہب کی تشہیر کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘ اس بورڈ کے نیچے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’مذہب کو تبدیل کرنا اپنی ماں کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 2016 ء میں اس گاؤں میں دوسرے مذاہب کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی، لیکن لوگوں کی توجہ اب اس پر گئی ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ چند برسوں سے عیسائی ہمارے گاؤں میں آتے ہیں اور ہمارے لوگوں کو پیسے اور دوائی کا لالچ دے کر انہیں تبدیلی مذہب کی طرف راغب کرتے ہیں، جبکہ ہم ہندو کبھی ایسا نہیں کرتے۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’وہ لوگ ہمارے لوگوں کا برین واش کرتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اس پر روک لگانے کا فیصلہ کیا۔ ‘‘
گاؤں کے لوگوں نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ’’دوسرے مذاہب کے لوگ گاؤں میں آ سکتے ہیں لیکن انہیں اپنے مذہب کی تشہیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم آر ایس ایس، بجرنگ دل یا وی ایچ پی کے کہنے پر نہیں اٹھایا گیا ہے بلکہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اب کیسا لنگایا پلی کی طرح آس پاس کے کئی گاؤں میں اس طرح کا رویہ نظر آ رہا ہے ۔ حالانکہ ابھی تک ان گاؤں میں سڑک پر کوئی بورڈ نصب نہیں کیا گیا ہے۔ وہیں، دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف انتباہ جاری کرنے کے معاملے پر انتظامیہ نے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے کارروائی کے معاملے پر گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو اس سے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ یہ ہم سب کا فیصلہ ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ ہمارے گاؤں میں آ ئیں۔ اس میں کسی کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 May 2018, 5:41 PM