کلبھوشن کو قونسلر رسائی:کیا یہ عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے ؟

پاکستان میں کئی حلقوں نے اس بات کا خیر مقدم کیا ہے کہ اسلام آباد نے کلبھوشن یادیو کو بھارتی حکومتی افسران سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ سیاست دانوں کی رائے ہے اس سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے

کلبھوشن کو قونسلر رسائی: پاکستان کا مثبت قدم؟
کلبھوشن کو قونسلر رسائی: پاکستان کا مثبت قدم؟
user

ڈی. ڈبلیو

دونوں ممالک نے اپنے سفارتی عملے کی تعداد کم کی ہوئی ہے اور تجارت بھی کسی حد تک متاثر ہے۔ تاہم اسلام آباد کی طرف سے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپنے ملک کے اہلکاروں تک رسائی کے فیصلے کو کئی حلقے اس تناؤ کی فضا کو کم کرنے میں معاون سمجھتے ہیں۔ معروف سیاست دان، نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل بزنجو نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خیال میں یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اور ہم اس خیال کے حامی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہیں۔ دونوں ممالک کو اپنے سیاسی، سفارتی اور تجارتی روابط کو بھی بہتر بنا نا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے سے موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔‘‘

تاہم حاصل بزنجو نے حکومت کی پالیسی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا،''میرے خیال میں حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ ایک طرف وہ بھارت کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں۔ تو گالیاں اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ ہمیں مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔‘‘


عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما فاورق طارق نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے دونوں اطراف برف پگھل سکتی ہے۔ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ دونوں ممالک لائن آف کنڑول کو نارمل کریں۔ اپنے سفارتی عملے کی تعداد بڑھائیں، تجارت کھولیں اور عوامی روابط کو بھی فروغ دیں۔‘‘

تاہم کئی ماہرین اس اقدام سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھ رہے۔ سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا خیال ہے کہ پاکستان جتنی بھی خیر سگالی دکھا دے، بھارت سے خیر کی توقع نہیں ہے۔


شمشاد احمد نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان نے کلبھوشن کی بھارتی افسران سے ملاقات کسی دباؤ کے تحت کرائی ہے یا بین الاقوامی برادری کو خوش کرنے کے لیے کرائی۔ پاکستان ایک مہذب ملک ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ہر حال میں پوری کرتا ہے۔‘‘

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے، بین الاقوامی طاقتیں اس کشیدگی کو کم کرانے کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں۔ انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگوں کو ختم کروانے میں روس اور امریکا نے کردار ادا کیا۔ کارگل کی جنگ کے دروان واشنگنٹن نے بہت متحرک کردار ادا کیا اور پلوامہ کے بعد بھی صدر ٹرمپ کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں ممالک پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے برطانیہ واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی دنیا اب بھی اس کشیدگی کو کم کرانے میں مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا،''میرے خیال میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد پاکستان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا تو پاکستان کو یہ کرنا ہی تھا۔ بین الاقوامی برادری اس صورت حال پر پریشان ہے اور امریکا و برطانیہ ہمیشہ ایسی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے بھارتی پائلٹ کو بھی امریکی دباؤ پر چھوڑا اور ابھی بھی ہم پر یہ دباؤ ہے کہ ہم بھارت سے کشمیر سمیت تمام معاملات دو طرفہ طور پر طے کریں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔