جنگ کے درمیان یوکرین سے لوٹے 1000 طلبا نے ازبکستان کا کیا رخ، تعلیمی سلسلہ شروع!
روس نے 2021 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا، اس کے بعد وہاں میڈیکل کی پڑھائی کر رہے سینکڑوں ہندوستانی طلبا جان بچا کر وطن واپس آ گئے تھے، اب تقریباً 1000 طلبا نے ازبکستان میں پڑھائی شروع کر دی ہے۔
یوکرین میں روس کا حملہ دو سال پہلے 2021 میں شروع ہوا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ روسی فوجی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ یوکرین بھی شکست ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے یوکرین کے کئی شہر پوری طرح برباد ہو چکے ہیں۔ لاکھوں یوکرینی اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جنگ کا اثر ایسے ہزاروں ہندوستانی طلبا بھی پڑا جو وہاں رہ کر تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ دو سال قبل یوکرین سے بچا کر نکالے گئے ہندوستانی میڈیکل اسٹوڈنٹس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب جا کر وہ تعلیمی سلسلہ شروع کر پائے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ازبکستان کی ایک مشہور یونیورسٹی میں تقریباً 1000 طلبا نے اپنی تعلیم پھر سے شروع کر دی ہے۔
جنگ متاثرہ ملک یوکرین سے کسی طرح اپنی جان بچا کر وطن واپس پہنچے ہندوستانی اسٹوڈنٹس نے اس وقت سوچا تھا کہ اب ان کا تعلیمی سفر بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ لیکن میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے سینکڑوں طلبا کو اب آسانی میسر ہوئی ہے اور انھوں نے پڑھائی شروع کر دی ہے۔ یوکرین میں ہندوستانی سفارت خانہ کی کوششوں کے بعد ازبکستان میں سمرقند استیٹ میڈیکل یونیورسٹی نے یوکرین میں تعلیم حاصل کر رہے 1000 سے زائد ہندوستانی میڈیکل اسٹوڈنٹس کو اپنے یہاں داخلہ دے دیا ہے۔
ازبکستان کی یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میں بیگو سرائے (بہار) کے امت بھی شامل ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے امت سہر جاتے ہیں کیونکہ یوکرین میں وہ رات انھیں ایک تہہ خانہ میں گزارنی پڑی تھی۔ روسی میزائلیں ہر طرف سے گھروں، عمارتوں اور دیگر مقامات کو نشانہ بنا رہی تھیں۔ پھر ’آپریشن گنگا‘ کے تحت حکومت نے کئی طلبا کو یوکرین سے نکالا اور امت کو بھی وطن واپسی کا موقع ملا۔
امت کا کہنا ہے کہ ’’میں نے سوچا تھا کہ میں یوکرین سے باہر نہیں نکل پاؤں گا۔ یا تو مر جاؤں گا یا یوکرین میں ہی پھنسا رہوں گا۔ ایک بار جب میں ہندوستان پہنچ گیا تو مجھے اور میرے گھر والوں کو راحت ملی۔ لیکن پھر پڑھائی کو لے کر غیر یقینی والی حالت تھی۔ میں نے ایم بی بی ایس کی پڑھائی میں یوکرینی یونیورسٹی سے تین سال پورے کر لیے تھے اور اسے دوبارہ شروع کرنا یا کچھ دوسرا راستہ اختیار کرنا مشکل تھا۔ میں نے بعد میں ازبکستان جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ سمرقند میں رہنے کا خرچ یوکرین کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے سے خوش ہیں۔
دوسری طرف پنجاب کے فیروزپور کی تنوی وادھوا، جو یوکرین میں بکووینین اسٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں، ایک سمیسٹر کے نقصان کے سبب یونیورسٹی میں شامل ہونے کو لے کر شبہات کی شکار تھیں۔ ازبکستان میں ایس ایس ایم یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر امینوف نے کہا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو ہندوستانی سفارتخانہ نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے ایسے طلبا کی ضرورتوں کا تجزیہ کیا اور فیصلہ لیا کہ انھیں ایک سیمسٹر بیک کے ساتھ داخلہ دیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہندوستانی طلبا کی سہولت کے لیے 30 مزید ہندوستانی اساتذہ کو کام پر رکھا ہے تاکہ زبان اور تلفظ سے متعلق کوئی مسئلہ نہ ہو۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔