یونان کا جرمنی سے سینکڑوں ارب یوروز طلب کرنے کا فیصلہ
یونانی پارلیمان نے فیصلہ کیا ہے کہ نازی جرمنی کی طرف سے دوسری عالمی جنگ کے دوران خوفناک جنگی جرائم اور بے تحاشا مادی نقصانات کے ازالے کے لیے یونان جرمنی سے سینکڑوں ارب یوروبطور تلافی طلب کرے گا
ایتھنز میں ملکی پارلیمان کے ایک فیصلے کے مطابق یونان دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے سات عشرے سے بھی زائد عرصے بعد اب جرمنی سے یہ باضابطہ مطالبہ کرے گا کہ برلن ایتھنز کو ممکنہ طور پر 290 ارب یورو تک کے زر تلافی کی ادائیگی کرے۔
یونانی پارلیمان نے یہ فیصلہ بدھ سترہ اپریل کو اکثریتی رائے سے کیا اور ملکی ماہرین کے ایک کمیشن مطابق ان رقوم کی مالیت 290 ارب یورو تک ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں ایوان میں ایک مسودہ قرارداد پارلیمانی اسپیکر نیکوس وُوٹسِس نے پیش کیا، جس میں ملکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے تمام سفارتی اور قانونی اقدامات کرے، جو جرمنی سے اس مالی ازالے کی وصولی کے لیے ناگزیر ہیں۔
شروع میں زبانی مطالبہ
مسودہ قرارداد کے مطابق شروع میں یونان جرمنی سے یہ مطالبہ زبانی طور پر یعنی سیاسی قیادت کی سطح پر کرے گا۔ عام طور پر اگر کوئی ریاست ایسا کرنا چاہے، تو اسے اپنا مطالبہ تحریری طور پر جرمن وزارت خارجہ تک پہنچانا چاہیے۔ اس بارے میں وزیر اعظم الیکسس سپراس نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا، ’’جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا ہمارا ایسا تاریخی اور اخلاقی فرض ہے، جس میں کوئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔‘‘
سپراس نے کہا کہ ایتھنز کے اس مطالبے کا یونان کو گزشتہ کئی برسوں سے درپیش مالیاتی بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یونان کی یہ خواہش ہے کہ اس طرح اس کے ذمے واجب الادا کئی سو ارب یورو کے قرضوں کی واپسی کے عمل کو تیز تر کیا جا سکے۔ سپراس نے تاہم یہ دعویٰ بھی کیا کہ مالیاتی بحران کے سلسلے میں بین الاقوامی بیل آؤٹ پیکجز کے بعد اب وہ مناسب ترین وقت ہے کہ یونان جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرے۔
سپراس 2015ء کے پارلیمانی الیکشن میں یونانی عوام سے جن وعدوں کے بعد اقتدار میں آئے تھے، ان میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن دستوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور جنگی جرائم کی تلافی کے لیے ازالے کی رقوم دلوائیں گے۔
یونان پر نازی قبضے کے حقائق
دوسری عالمی جنگ کے دوران اڈولف ہٹلر کی قیادت میں جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ یا نازی حکومت کے فوجی دستوں نے اپریل 1941ء سے لے کر ستمبر 1944ء تک یونان پر قبضہ کیے رکھا تھا۔ اس دوران تقریباﹰ تین لاکھ یونانی باشندوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس تقریباﹰ ساڑھے تین سال تک کے قوجی قبضے کے عرصے میں نازی جرمن فوج نے یونان میں کئی بار عام شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان واقعات میں سے لنگیادیس، دِستومو، کالاوریتا، کاندانوس اور ویانوس جیسے شہروں اور قصبوں میں کیے جانے والے قتل عام کے واقعات بڑے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
یونانی صدر کا موقف
یونان میں، جس کے لیے نازی قبضے کے دور سے بہت سی تکلیف دہ یادیں جڑی ہوئی ہیں، ملکی صدر پروکوپِس پاولوپولوس بھی اس زر تلافی کے مطالبے اور اس کی ادائیگی کے بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے اس سال کے اوائل میں زور دے کر کہا تھا کہ ایسا مطالبہ کرنا یونان کا حق ہے اور اس متنازعہ معاملے میں فیصلہ یورپی سطح پر کسی بااختیار قانونی ادارے یا فورم کو کرنا چاہیے۔
جرمنی کے لیے یہ باب بند ہو چکا ہے
جہاں تک یونان کے اس آئندہ مطالبے کے بارے میں وفاقی جرمن حکومت کے موقف کا تعلق ہے تو برلن میں میرکل حکومت کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے ایتھنز میں پارلیمانی قرارداد پر کسی فیصلے سے پہلے ہی اس موقف کی وضاحت کر دی تھی۔
ترجمان کے مطابق وفاقی حکومت کو اس بارے میں بہت افسوس بھی ہے اور گہرا احساس جرم بھی کہ نازی دور میں جرمن دستوں نے یونان پر قبضے کے برسوں میں وہاں کیا کیا ظلم ڈھائے تھے، لیکن اس کے با وجود کسی مالی ازالے کی ممکنہ ادائیگی سے متعلق جرمن حکومت کی سوچ اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔
میرکل حکومت کے ترجمان کے بقول، ’’برلن حکومت کا خیال یہ ہے کہ یہ معاملہ قانونی اور سیاسی سطح پر اور حتمی طور پر بھی حل کیا جا چکا ہے۔‘‘
جرمنی ماضی میں یونان کی طرف سے اس بارے میں گاہے بگاہے کیے جانے والے بالواسطہ ذکر پر یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ایتھنز کو ایسی کوئی ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی۔
اس لیے کہ ایک تو 1953ء میں لندن میں طے پانے والے قرضوں سے متعلق معاہدے میں جرمنی کو ہر طرح کے زر تلافی کی ادائیگی کی ذمے داری سے آزاد کر دیا گیا تھا اور دوسرے یہ کہ 1990ء میں بین الاقوامی سطح پر ’دو جمع چار‘ کی بنیاد پر طے پانے والے دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے معاہدے کے تحت بھی یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔
زر تلافی کی مالیت کتنی
یونانی ماہرین کے ایک کمیشن کے مطابق ایتھنز کو برلن سے جس مالی ازالے کا مطالبہ کرنا چاہیے، اس کی مالیت 290 ارب یورو تک ہو سکتی ہے۔
لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے انکار کے باوجود شماریاتی سطح پر یہ رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ اگر برلن حکومت چاہتی بھی تو ادائیگی تقریباﹰ ناقابل تصور ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برس جرمنی کے سالانہ وفاقی بجٹ کی کل مالیت تقریباﹰ 344 ارب یورو تھی اور اگر یونان کی خواہش کو سامنے رکھا جائے تو 290 ارب یورو کے مالی ازالے کے ممکنہ مطالبے کا مطب ہو گا جرمنی کے سالانہ وفاقی بجٹ کی کل مالیت کا تقریباﹰ 85 فیصد۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔