گوا: بی جے پی وزیر بھی منوہر پاریکر کو وزیر اعلیٰ عہدہ سے ہٹانے کے حامی
مرکزی وزیر مملکت شری پد نائک کا کہنا ہے کہ گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کی بیماری کو دیکھتے ہوئے وہاں آج یا کل قیادت میں تبدیلی کرنی ہی ہوگی۔
گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کی صحت لگاتار خراب ہوتی جا رہی ہے اور اب بی جے پی قیادت کے اندر بھی انھیں عہدہ سے سبکدوش کیے جانے کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کی قومی قیادت اس سلسلے میں آخر فیصلہ کیوں نہیں لے رہی، یہ حیران کرنے والی بات ہے۔ مرکزی وزیر مملکت شری پد نائک نے بھی اب گوا میں قیادت کی تبدیلی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کی بیماری کو دیکھتے ہوئے وہاں آج یا کل قیادت میں تبدیلی کرنی ہی ہوگی۔‘‘ ساتھ ہی مرکزی وزیر نے یہ بھی کہا کہ بیماری کو دھیان میں رکھتے ہوئے پاریکر کو وزیر اعلیٰ عہدہ سے آزاد کرنا ضروری ہے۔
شری پد نائک گوا کے ایسے پہلے بی جے پی لیڈر ہیں جنھوں نے ریاستی قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ میڈیا کے سامنے کیا ہے۔ ورنہ پہلے تو اندرونی طور پر اس طرح کے مطالبات ہو رہے تھے لیکن کسی نے باہر آ کر ایسا میڈیا کے سامنے نہیں کہا۔ گوا میں ساتھی پارٹیوں کے لیڈروں نے ضرور اس طرح کا مطالبہ کیا تھا لیکن بی جے پی لگاتار اس سے انکار کرتی رہی ہے۔ خبروں کے مطابق پارٹی نے پاریکر کے متبادل کی تلاش شروع کر دی ہے اور امت شاہ نے گوا میں بی جے پی کی معاون پارٹیوں کے لیڈروں سے بات کی تھی۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی پختہ جانکاری سامنے نہیں آئی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن لگاتار منوہر پاریکر کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی غیر موجودگی میں انتظامی ٹھہراؤ کا شکار ہو گیا ہے۔ بتا دیں کہ گوا کے وزیر اعلیٰ پینکریاٹک کینسر سے متاثر ہیں۔ گزشتہ نو مہینے سے وہ گوا، ممبئی، نیو یارک اور دہلی کے اسپتالوں میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ صحت بری طرح سے گر گئی ہے۔ پاریکر دہلی کے ایمس سے 14 اکتوبر کو لوٹنے کےبعد سے ایک بار بھی عوامی طور پر نظر نہیں آئے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہ پر آرام فرما رہے ہیں۔ ان کی رہائش کو ایک جدید اسپتال کی شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اور ان کے معاونین 24 گھنٹے وہاں تعینات ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Nov 2018, 2:09 PM