مظفر نگر فساد: وہ ایک برا دن سارے اچھے دنوں پر بھاری ہو گیا

مغربی اترپریش کے کوال گاؤں کے ایک واقعہ نے علاقہ کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ وہاں اس دن ایسا کیا ہوا تھا جو پانچ سال قبل مظفر نگر میں فساد کی وجہ بنا اورکیا حقیقت میں کوال ان دنگوں کے لئے ذمہ دار ہے؟۔

آس محمد کیف 
آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

فساد کی آگ کسی کی سیاسی زندگی کو روشن کر دیتی ہے تو کسی کی زندگی کو خاک میں بھی ملا دیتی ہے۔ یہ ہےمظفر نگر فسادات کے 5 سالوں کی کہانی، جس میں 2013 میں تقریباً 100 افراد ہلاک ہوئے، درجنوں گھر جل کر خاک ہو گئے، بے شمار خواتین کی عصمت دری ہوئی اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔ اگر اس فسادات کا الزام کسی کی پیشانی پر ہے، تو وہ ہے کوال گاؤں، جہاں کوئی فساد ہوا ہی نہیں۔ جی ہاں، یہ گاؤں، بے شک، قتل کا گواہ ہے جو فسادات کی وجہ بنا۔

27 اگست، 2013، یہ وہ تاریخ ہے جو مغرب اترپردیش میں مظفر نگر کی پیشانی پر ایک داغ کے طور پر یاد کی جاتی رہے گی۔ مظفر نگر کے ایک گاؤں کوال میں اس دن تین افراد قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں ایک مسلمان اور دو ہندو جاٹ نوجوان تھے۔ مظفر نگر اور اس علاقے کے لئے یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا جو فساد کی وجہ بنتا کیونکہ اس علاقے میں اس طرح کے مجرمانہ واقعات کوئی نئی بات نہیں تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ کوال گاؤں میں دو نوجوانوں کی موٹرسائیکل کی ٹکر ہو گئی تھی اور ان دو نوجوانوں کے جھگڑے میں ایک نوجوان نے دوسرے کو یہ چیلنج کر دیا کہ اگر ماں کا دودھ پیا ہے تو وہ یہیں کھڑا رہے۔ نوجوان وہیں کھڑا رہا دوسرا نوجوان چلا گیا اور اپنے ایک دوست کے ساتھ واپس آیا اور پہلے نوجوانوں کو چھری مار کر قتل کر دیا۔ جب دونوں قتل کے بعد بھاگ رہے تھے، تو لوگوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کا قتل کر ڈالا۔

یہ ایک مجرمانہ واقعہ تھا لیکن اس واقعہ نے فرقہ وارانہ فساد کا رنگ اختیار کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کوال گاؤں میں ایسا فساد بھڑکا کہ 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے (68 افراد حکومت کے مطابق، لیکن بعد میں لاپتہ لوگوں کو بھی مردوں میں شمار کر لیا گیا)، درجنوں خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، بہت سے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔

فساد کی وجہ کوال گاؤں کا یہ واقعہ بنا اور یہ گاؤں اب بھی اس کا بوجھ سینے پر لئے ہوئے ہے۔ مظفر نگر شہر سے جانسٹھ کے راستہ پر اس گاؤں میں تقریباً 8 ہزار افراد کی آبادی ہے۔ کوال ایک مسلم اکثریتی گاؤں ہے جہاں قریش برادری کے زیادہ لوگ رہتے ہیں جن کی آبادی 3 ہزار سے زیادہ ہے۔ قریشی عام طور پر گوشت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان پر گئوکشی کے بھی الزام لگتے رہتے ہیں۔ علاقے کی دوسری برادری انہیں ظالم اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے۔

27 اگست، 2013 کو، گورو اور سچن جس شاہنواز کاقتل کر کے بھاگ رہے تھے، وہ قریشی برادری کا تھا۔ گورو اور سچن کو شاہنواز کے گھر سے 100 میٹر کے ایک چوک پر قتل کیا گیا تھا۔ اس چوک کی رونق دوبارہ واپس آنے لگی ہے۔ یہاں، آفتاب، جو ایک میٹھائی دوکان چلاتا ہے وہ اس واقعہ کو یاد کر کے بتاتا ہے کہ کوال میں لوگ اپنی بیٹی کی شادی بھی اب کرنا پسند نہیں کرتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوال گاؤں میں کوئی فساد ہوا ہی نہیں۔ جھگڑے میں تین افراد ہلاک ہوئے جس کا سبھی کو غم ہے لی لیکن اس واقعہ پر ہوئی سیاست نے پورے امن میں آگ لگا دی۔

آفتاب نے وضاحت کی، "ان فسادات کی آگ میں وکرم سینی جیسے کئی رہنما بن گئے اور گاؤں کے مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ وکرم سینی اور مفتی مکرم دونوں کو فسادات کے الزام میں سزا دی گئی تھیں اور وہ رسوکا میں بند کردیئے گئے تھے لیکن وکرم سینی کو کیوں چھوڑ دیا گیا اور اب تو وکرم سینی رکن اسمبلی بن گئے ہیں۔

اس گاؤں کے محمد اعظم کہتے ہیں کہ، "اس فساد میں وکرم سینی اور مفتی مکرم کی کوئی غلطی نہیں تھی، لیکن پولس نے ان دونوں کو ذمہ دار قرار ٹھہرایا۔ مفتی جیل میں رہنے کی وجہ سے برباد ہوگئے اور وکرم سینی ان فسادات سے آباد ہو گئے۔ وہ پہلے ضلع پنچایت کے رکن بنے اور اب رکن اسمبلی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں، بی جے پی نے انہیں کھتولی اسمبلی کی نشست سے کھڑا کیا تھا۔

ٹھیک ہے، وکرم سینی اکثر اپنے بیانات کی وجہ سے تنازعات میں رہا ہے۔ فسادات کے وقت وہ گاؤں کا سربراہ تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا اور اس کے بعد وہ ضلع پنچایت کا رکن بنا۔

فساد کے بعد کے دو سال تک گورو اور سچن کی سالگرہ پر بھیڑ بھی جمع ہوتی تھی۔ ملک پور میں ان دونوں کے مجسمہ بھی لگے، انہیں شہید سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پانچ سالوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ اس موقع پر گورو اور سچن کی سالگرہ پر کوئی بھیڑ نہیں جمع ہوئی، ملک پورہ کوال کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جس کا راستہ کوال کے درمیان سے گزرتا ہے لیکن فساد کے بعد اس راستے کو بند کر دیا ہے۔

مظفر نگر فساد: وہ ایک برا دن سارے اچھے دنوں پر بھاری ہو گیا

جب 2013 میں فساد ہوا تھا تو میڈیا میں بتایا گیا تھا کہ فساد کی وجہ چھیڑ چھاڑ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فساد قتل کی ایک واردات کے بعد بھڑکے تھے۔ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے اس جھگڑے کو ہندو لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بتایا تھا دراصل انہوں نے ہی اس فساد کی اسکرپٹ لکھی تھی۔ یہاں تک کے پاکستانی ویڈیو کو کوال کی عصمت دری کا واقعہ پیش کر کے شئیر کیا گیا۔ اس کا الزام بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم پر بھی لگا تھا۔ اس حادثہ میں قتل ہوئے شاہنواز کے والد کچھ نہیں بولتے لیکن شاہنواز کے تایا نسیم احمد جھگڑے کی وجہ موٹر سائیکل کی ٹکر کو ہی مانتے ہیں۔ نسیم احمد بتاتے ہیں کہ پانچ سال سے ان کے بیٹے جیل میں ہیں ابھی تک ضمانت پر سنوائی تک نہیں ہوئی اور ان میں سے مزمل تو اپاہج ہے۔ نسیم احمد بتاتے ہیں کہ قتل کے الزام میں باقی افراد کو بے گناہ مانتے ہوئے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کے بچوں پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ کوال گاؤں میں لوگوں کے درمیان اب رشتہ بہتر ہو رہے ہیں لیکن فساد کا داغ باہر کے لوگوں کو صاف نظر آتا ہے۔ گاؤں کے سابق پردھان مہیندر سینی کہتے ہیں ’’لوگوں کا برتاؤ اچھا ہے لیکن جب باہر جاتے ہیں تو کوال کے لوگوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں سے گاؤں میں پی اے سی تعینات ہے‘‘۔ وہیں گاؤں کے طیب علی کہتے ہیں ’’اس فساد کے بعد ایسے درجنوں موقع آئے جب ہندوؤں نے مسلمانوں کی مدد کی اور مسلمانوں نے ہندوؤں کی مدد کی، لیکن وہ ایک برا دن تھا سب دنوں پر بھاری پڑ گیا‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Aug 2018, 7:43 AM