سی سی ٹی وی معاملہ: کیجریوال حکومت کی چینی کمپنی کو فائد ہ پہنچانے کی کوشش
اجے ماکن نے کیجریوال حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے کے لئے کئے گئے ٹنڈر معاملہ میں ضابطوں کی زبردست خلاف ورزی کی ہے اور ایک چینی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
دہلی میں سی سی ٹی وی لگانے کے معاملہ پر کیجریوال حکومت کو گھیرتے ہوئے دہلی کانگریس نے اس پر الزام لگایا ہے کہ حکومت نے اس سلسلہ میں کئے گئے ٹنڈر میں ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس میں چین کی ایسی کمپنی کو فائدہ پہچانے کی کو شش کی ہے جس میں چینی حکومت58فیصد کی حصہ دار ہے ۔ کانگریس نے آج پریس کانفرنس میں اروند کیجریوال کے ذریعہ سی سی ٹی وی کیمرہ کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے ملک کی سیکورٹی پر منڈلا رہے خطرات کی طرف اشارہ کیا۔
پریس کانفرنس میں اجے ماکن نے بتایا کہ اکتوبر 2015 سے فروری 2018 تک جو تاخیر کیجریوال حکومت نے کی وہ صرف اس لیے تھی کہ چین کی کمپنی ’ہِک ویژن‘ کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی الزام لگایا کہ یہ ٹھیکا 130 کروڑ سے بڑھا کر 571 کروڑ تک پہنچانے کے پیچھے جو بدعنوانی نظر آ رہی ہے، وہ دراصل چینی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے ۔ اجے ماکن نے کہا کہ جب بھی عآپ حکومت سے سوال کیا جاتا تھا کہ ٹھیکہ کس کمپنی کو دیا گیا ہے تو ان کا جواب صرف اتنا ہوتا تھا کہ ’’پی ایس یو کو دیا گیا ہے‘‘ لیکن ’بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ‘ (بی ای ایل) خود تو ایکوئپمنٹ بناتی نہیں ہے تو آخر کون سی ایسی پرائیویٹ کمپنی ہے جس کو ٹھیکہ دیا گیا؟ اس سوال کا جواب کبھی نہیں دیا گیا۔ ماکن نے کہا حکومتِ دہلی کا یہ کہنا درست تھا کہ پی ایس یو کو ٹھیکہ دیا گیا ہے، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ پی ایس یو کس نجی کمپنی سے کام کرائے گی ۔ دہلی کانگریس صدر نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی اور عآپ ملے ہوئے ہیں اور ’ہِک ویژن‘ نے بی ای ایل کا ماسک پہن کر اس ٹھیکہ کو حاصل کر لیا ہے۔
اجے ماکن کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے میں بدعنوانی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرہ پروجیکٹ بی ای ایل کو اس وقت تک نہیں دیا گیا جب تک کہ’ ہِک ویژن ‘کمپنی بی ای ایل کے وینڈر لسٹ میں شامل نہیں ہو گئی۔ اس کے علاوہ پی ڈبلو ڈی کے 6 فروری 2018 کے منٹس میں لسٹ آف اٹینڈیز کو دیکھنے سے بھی سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ اس منٹس میں ’لارسن اینڈ ٹوبرو‘ اور ’بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ‘ دو کمپنیوں کو بِڈ میں شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور اٹینڈیز میں بی ای ایل کے منوج کمار اگروال کے ساتھ ساتھ’ ہِک ویژن ‘کے چندر شیکھر اور اروند کمل بھی شامل تھے۔ پریس کانفرنس میں اجے ماکن نے ایک ٹیلی فونک گفتگو کا آڈیو بھی سنایا جس میں ایک سینئر کانگریس رہنما ’ ہِک ویژن‘ کے چندر شیکھر سے بات کرتے ہیں اور چندر شیکھر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سی سی ٹی وی کیمرہ کا ٹھیکہ ان کی کمپنی کو ملا ہے۔
پریس کانفرنس میں ڈاکٹر اے کے والیہ، ہارون یوسف، اروندر سنگھ لولی، راج کمار چوہان جیسے سینئر پارٹی لیڈران کے ساتھ اجے ماکن نے کہا کہ سی سی ٹی وی کیمرہ پروجیکٹ میں ہوئی بدعنوانی پر دہلی کانگریس سی بی آئی، سی وی سی اور ضرورت پڑی تو قصورواروں کو سزا دلانے کے لیے عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹانے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ کانگریس صدر نے ساتھ ہی اس معاملے میں ذمہ دار دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو فوری اثر سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کیجریوال نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دیا تو دہلی کانگریس ان کی رہائش پر اتوار 13 مئی 2018 کو زبردست مظاہرہ کرے گی۔
دوسری طرف دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر دہلی میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے میں لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کے ذریعہ کی جا رہی رخنہ اندازی کی شکایت کی۔ انھوں خط میں لکھا ہے کہ دہلی کے عوام سی سی ٹی وی کیمرہ لگنے کا انتظار کر رہے ہیں، خصوصاً خواتین اپنی سیکورٹی کے مدنظر چاہتی ہیں کہ ایسا جلد ہو لیکن ایل جی نے ایک کمیٹی بنا کر سارا کام ٹھپ کر دیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ بغیر انھیں بتائے خاموشی سے ایل جی نے کمیٹی کیسے بنا دی اور جب ٹنڈر کا پورا عمل مکمل ہو چکا تھا اور کیمرے بس لگنے ہی والے تھے تو اس کمیٹی کے بنانے کا مقصد کیا ہے۔
چاندنی چوک سے عآپ کی ممبر اسمبلی الکا لامبا نے بھی سی سی ٹی وی کیمرہ پروجیکٹ سے متعلق آج ایک ٹوئٹ کیا ہے۔ انھوں نے اس ٹوئٹ میں دہلی کانگریس صدر اجے ماکن کو کیجریوال حکومت پر الزام لگانے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ انھیں سوال کیجریوال حکومت سے نہیں بلکہ نریندر مودی سے پوچھنا چاہیے۔ وہ اپنے ٹوئٹ میں لکھتی ہیں کہ ’’حکومتِ دہلی نے بی جے پی کی مرکزی حکومت والی کمپنی کو ٹھیکہ دیا۔ پی ایم مودی جی ابھی چین گئے تھے، ٹھیکہ چین کی کمپنی کو دے آئے۔ ماکن پی ایم مودی جی سے کیوں نہیں پوچھ رہے؟ ماکن کی بی جے پی اور مودی جی سے کیا سیٹنگ ہے؟‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔