’عدالت نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ بابری مسجد معاملہ عقیدت نہیں ملکیت کا‘

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے ذریعہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کا اثر بابری مسجد مقدمہ پر نہ پڑنے کی بات کہے جانے پر خوشی ظاہر کی اور کہا کہ انھیں قانون و عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

5 دسمبر 2017 سے بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں ہوئی بحث کے بعد آج چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والی بنچ نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں یہ وضاحت کردی کہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کا مقدمہ پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ ساتھ ہی فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ نماز مسجد میں اداکرنا ضروری ہے یا نہیں اس کا اس مقدمہ سے کوئی سروکارنہیں ہے ۔

صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدنی نے آج کے فیصلہ پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آج ایک بارپھر اس بات کی وضاحت کردی کہ یہ معاملہ آستھا (عقیدت) کانہیں بلکہ ملکیت کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون اورعدلیہ پر مکمل اعتمادرکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں تمام شواہد وثبوتوں کو مدنظررکھتے ہوئے عدالت اپنا فیصلہ دے گی ۔

مولانامدنی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بلاشبہ اس مقدمہ سے مسلمانوں اورملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں کیونکہ یہ تنہاایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے سیکولر اورجمہوری کردارسے جڑاہوا معاملہ ہے اور آئین وقانون کی بالادستی کا بھی ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح جبراً ایک مسجد کو شہید کر کے آئین وقانون کے رہنمااصولوں کی دھجیاں اڑادی گئی تھیں ۔

قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے 27 ستمبر کو اپنا فیصلہ سنایا لیکن بنچ کے دوسرے جج جسٹس عبدالنظیر دونوں فاضل ججوں کے فیصلوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ اگرڈاکٹر اسماعیل فاروقی کے فیصلوں میں ہونے والی غلطیوں پر نظرثانی ہوجاتی تو اچھاتھا ۔

قابل غور یہ بھی ہے کہ آج جیسے ہی عدالت کی کاروائی شروع ہوئی جسٹس اشوک بھوشن نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا ، اس معاملہ میں فریق اول جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء ڈاکٹر راجیودھون اور راجیورام چندرن کی جانب سے کی گئی بحثوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ اسماعیل فاروقی کے فیصلہ کا بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس مقدمہ کی سماعت میرٹ کی بنیادپر ہوگی ، جسٹس بھوشن نے واضح کیا کہ بابری مسجد کی زمین سرکاری تحویل میں لیتے وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ نماز کامسجد میں اداکیا جانا ضروری نہیں ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت قانون کے تحت کوئی بھی زمین اپنی تحویل میں لے سکتی ہے ، لہذا چیف جسٹس اور میری رائے یہ ہے کہ اس معاملہ کی سماعت تین رکنی بینچ ہی میں ہو ۔

جسٹس عبدالنظیر نے چیف جسٹس اور جسٹس اشوک بھوشن کے مشترکہ فیصلہ سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں کہا کہ وہ چیف جسٹس اور جسٹس بھوشن کے مشترکہ فیصلہ سے متفق نہیں ہیں ، اور ان کاماننا ہے کہ کہ فاروقی کے فیصلہ پر نظرثانی کی جانی چاہیے تھی ، کیونکہ مسجدمیں نمازکاپڑھنا اسلام کااہم جز ہے، اپنے فیصلہ میں انہوں نے کہا کہ حال میں سپریم کورٹ نے خواتین کے ختنہ (FGM) کو مذہب کا جز تسلیم کرتے ہوئے اس معاملہ کو کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کردیا ہے ،اسی طرح اس معاملہ کو بھی ایک کثیر رکنی بینچ کے سامنے بھیجا جانا چاہیے تھا ۔

سپریم کورٹ نے آج ایک بارپھر یہ بات واضح کردی کہ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ آستھا کی بنیادپر نہیں بلکہ عدالت کے سامنے موجودثبوتوں وشواہد کی بنیادپر کیا جائے گا ، عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی اس بات کے لئے ستائش کی کہ انہوں نے اس سلسلہ میں جو کاغذات جمع کئے ہیں اس سے انہیں اپنا فیصلہ سنانے میں بڑی سہولت ہوئی ، اب ا س مقدمہ کی سماعت 29؍اکتوبر کو ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Sep 2018, 7:33 PM