بی جے پی کے اشارے پر انّا کی بھوک ہڑتال ختم
انّا ہزارے کا مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھانا تو محض نمائش تھی، 2011 کی طرح اس تحریک سے بھی انھوں نے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی، لیکن عوام نے اسے ’فلاپ شو‘ بنا دیا۔
آج انّا ہزارے کے بھوک ہڑتال کا ساتواں دن تھا اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے سات منٹ کی ملاقات میں ہی انھیں ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ 23 مارچ سے دہلی کے رام لیلا میدان میں مضبوط لوک پال، انتخابات میں اصلاح اور کسانوں کے مسائل کے لیے انّا ہزارے نے مرکزی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ تو بڑے جوش کے ساتھ کیا تھا لیکن اس کا جو حشر ہوا اس کا یقین شاید انھیں نہیں ہوگا۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ کوئی عوام کو ایک بار بے وقوف بنا سکتا ہے، بار بار نہیں۔ 2011 میں جب ’جن لوک پال‘ پر کانگریس حکومت کے خلاف انھوں نے محاذ کھولا تھا تو لوگوں کی خوب حمایت ملی تھی اور کانگریس کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ لیکن اس بار تو انّا تحریک کے دوسرے دن ہی یہ ’فلاپ شو‘ ثابت ہوا اور ان کے ساتھ درجن بھر لوگ رہ گئے، باقی نے اپنے گھر کا راستہ لیا۔ مطلب سیدھا ہے کہ اس بار عوام تو چھوڑیے، جس کسان کی آواز بلند کرنے کا وہ شور مچا رہے تھے، وہ کسان بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ دیویندر فڑنویس کے ہاتھوں جوس پی کر اپنا بھوک ہڑتال ختم کرنے والے انّا کہتے ہیں کہ ’’حکومت نے کسانوں سے متعلق سبھی مطالبات مان لیے ہیں۔ ابھی لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت نے چھ مہینے کا وقت مانگا ہے۔ ہم انھیں وقت دیتے ہیں۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ فڑنویس کہہ رہے ہیں کہ وہ چھ مہینے سے پہلے ہی ہمارے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ کیا کسان اور عوام اتنے بے وقوف ہیں کہ فڑنویس کی یقین دہانی پر بھروسہ کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انّا کی 2011 کی تحریک بھی عوام کے لیے نہیں تھی اور آج ختم ہونے والی تحریک بھی نہیں۔ یہ دونوں ہی تحریکیں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔
جی ہاں! حقیقت یہی ہے۔ انّا کے ذریعہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو فائدہ پہنچانے کی بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 2011 کی تحریک سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہی پہنچا اور وہ مرکز میں برسراقتدار ہو گئی۔ دہلی پر اروند کیجریوال کی عآپ کا قبضہ ہوا جس پر بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ ہونے کا الزام اکثر لگتا رہا ہے۔ اس بار کی تحریک نے بھی بی جے پی کو خوب فائدہ پہنچایا۔ کسان بے حال ہیں، پریشان ہیں اور ملک کے گوشے گوشے میں مودی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے کسانوں نے بھی ریاست میں فڑنویس حکومت اور مرکز میں مودی حکومت کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے جس سے بی جے پی کا جینا محال ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں انّا ہزارے نے بی جے پی کے اشارے پر نام نہاد ’کسان تحریک‘ چلا کر مہاراشٹر اور پورے ملک کے کسانوں کی تحریک کو ایک طرح سے بے اثر کرنے کی کوشش کی۔ آج جب فڑنویس کے ہاتھوں سے انّا ہزارے نے جوس پی کر بھوک ہڑتال ختم کی تو اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی کیونکہ نہ ہی کسانوں کا بھلا ہوا، نہ ہی لوک پال بل کا راستہ صاف ہوا اور نہ ہی انتخابات میں اصلاح کی بات کی گئی۔ صرف بھروسہ اور یقین دہانی کا بازار گرم ہوا اور انّا ہزارے نے بی جے پی کے اشارے پر اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔
کس قدر حیران کرنے والی بات ہے کہ بھروسہ اور یقین دہانی کے ذریعہ پہلے سے ہی کسانوں کے ساتھ ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنے والی مرکز کی مودی حکومت پر انّا ہزارے نے اتنی آسانی سے بھروسہ کر لیا۔ بھوک ہڑتال کے چھٹے دن یعنی بدھ کے روز انّا نے اپنے حامیوں اور پریس کو صبح 10 بجے مرکزی حکومت کے ذریعہ ڈرافٹ بھیجے جانے کی جانکاری دی تھی اور انھوں نے کہا تھا کہ ’’15 صفحات پر مبنی غیر واضح ڈرافٹ بھیج کر انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا تھا کہ حکومت نے کسانوں کو خرچ پر ڈیڑھ گنا زیادہ رقم دینے کی شرط مانی لیکن یہ نہیں بتایا کہ رقم کس طریقے سے دی جائے گی۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے کسان، نوجوان اور بے روزگاروں کو بہت پہلے احساس ہو چکا ہے کہ مودی حکومت گمراہ کرنے کا کام کرتی ہے، پھر انّا ہزارے کو کیوں پتہ نہیں چلا۔ اور ہڑتال کے چھٹے دن جب انھیں معلوم ہو گیا کہ بی جے پی حکومت گمراہ کر رہی ہے تو پھر ساتویں دن فڑنویس کے کہنے پر، بغیر کسی واضح ڈرافٹ کے جوس سے بھرا گلاس ہونٹوں سے کیسے لگا لیا۔
سات دنوں کی انّا کی بھوک ہڑتال نے ثابت کر دیا کہ پبلک سب جانتی ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو انّا تحریک میں پہلے دن ہوئے خرچ پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر کس تنظیم نے اس پروگرام کو آرگنائز کیا اور پورا خرچ کس نے اٹھایا۔ سیدھی سی بات ہے... جن کو اس تحریک سے فائدہ اٹھانا تھا، انھوں نے ہی خرچ بھی کیا ہوگا۔ لیکن دوسرے دن ہی یہ تحریک جس طرح فلاپ ہوئی، یقیناً آر ایس ایس اور بی جے پی کو سارے کیے پر پانی پھرتا ہوا نظر آنے لگا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹے دن جب انّا کی طبیعت خراب ہونے کی بات سامنے آئی اور تحریک کے میڈیا انچارج جے کانت مشرا نے بتایا کہ ’’شام تک اَنّا کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ وہ بول نہیں پا رہے تھے۔ اس سے شام پانچ بجے ہونے والا پریس کانفرنس کا وقت چھ بجے کیا گیا۔ چھ بجے تک صحت میں بہتری نہ ہونے کی حالت میں اسے منسوخ کر دیا گیا‘‘ تو بی جے پی نے یہی سوچا ہوگا کہ جلدی تحریک ختم کرائی جائے ورنہ انّا کو کچھ ہو گیا تو مودی حکومت پر سوال کھڑے ہوں گے۔ پھر کیا تھا، ساتویں دن فڑنویس اپنے ساتھیوں کے ساتھ رام لیلا میدان پہنچ گئے اور میڈیا میں خبر گشت کرنے لگی کہ ’’مودی نے انّا کا مطالبہ مان لیا‘‘۔ اس طرح فڑنویس نے بھی واہ واہی لوٹ لی اور مرکزی حکومت نے بھی چین کی سانس لی۔ لیکن ملک کے کسان، نوجوان، بے روزگار اور دلت طبقہ چین کی سانس لینے والا نہیں ہے۔ اس نے مودی حکومت کے خلاف پورے ملک میں جو تحریک شروع کی ہے وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ 2019 انتخابات میں بی جے پی کو شکست نہ ہو جائے۔ ممکن ہے چھ مہینے کے بعد انّا ایک بار پھر مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھا کر خود کو کسانوں کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش کریں، لیکن پبلک تو سب جانتی ہے... وہ اب ان کے جھانسے میں آنے والی نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Mar 2018, 9:09 PM