اے ایم یو: انتظامیہ سے ناراض طلبا نے انسانی زنجیر بنائی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی معاملہ گرم ہے اور ہندو-مسلم طلبا اتحاد کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ امتحان کا شیڈول آنے سے طلبا میں بے چینی ضرور ہے لیکن وہ اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں چل رہی طلبا تحریک کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور یہ صرف طلبا تحریک کا مرکز ہی نہیں بن رہا ہے بلکہ ہندو-مسلم اتحاد کی بھی مثال بن رہا ہے۔ اس میں شرکت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں غیر مسلم احتجاجی اور دانشور بھی شامل ہو رہے ہیں۔ اپنے مطالبات کے لیے آج اے ایم یو سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15000 افراد نے ضلع مجسٹریٹ دفتر کے پاس انسانی زنجیر بنائی۔ اس درمیان انھوں نے ’سنگھی سنگھی ہائے ہائے، یوگی-مودی ہائے ہائے‘ اور ’یو پی پولس مردہ باد، خاکی سنگھی مردہ باد‘ جیسے نعرہ لکھے ہوئے پوسٹر بھی لہرا رہے تھے۔ حالانکہ آج امتحان کا شیڈول آنے سے طلبا میں بے چینی بڑھ گئی ہے کیونکہ طلبا 12 مئی سے امتحان دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دوسری طرف بی جے پی-آر ایس ایس، ہندو یوا واہنی سمیت بقیہ تنظیموں نے ہندو-مسلم پولرائزیشن کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اس نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے پوتے گرون دھون سنگھ کو آگے کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام بدلنے کا مطالبہ کر ڈالا ہے۔ ان کی تصویر لے کر پہلے ہی ضلع مجسٹریٹ کے یہاں یہ لوگ دھرنا و مظاہرہ کر چکے ہیں۔ حالانکہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی تصویر یونیورسٹی کے سنٹرل ہال میں لگی ہوئی ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ لیفٹ-ترقی پذیر رجحان کے مانے جاتے تھے اور وہ تاحیات اے ایم یو کے خیر خواہ رہے۔ اس سلسلے میں اے ایم یو کے طالب علم کامران نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ مہاراجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور ان کے والد راجہ گھنشیام سنگھ بہادر برابر اے ایم یو کی مدد کرتے رہے، وظیفہ دیتے رہے اور آج ان کے وارث علی گڑھ کی شان کے خلاف ہی لایعنی مہم چلا رہے ہیں۔ دراصل بی جے پی اسے کسی بھی قیمت میں ہندو وقار کا ایشو بنا کر سیاست کرنے کی فراق میں ہے۔
اُدھر، انتظامیہ نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ رمضان سے پہلے ہی اس کی جانچ وغیرہ پوری کرا لینا چاہتا ہے۔ رمضان کے وقت تحریک دوسری سمت میں جانے کا ڈر ہے۔ اس بارے میں اے ایم یو کے سینٹر فار وومن اسٹڈیز میں استاذ تروشیکھا نے بتایا ’’بی جے پی اور آر ایس ایس کی بریگیڈ چن چن کر طلبا کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے جناح کی تصویر پر ہنگامہ کر رہے تھے اور اب سر سید کو بھی گھسیٹ رہے ہیں۔ جنھوں نے اس یونیورسٹی کو بنایا ان کے خلاف ہی منصوبہ بند سازش کی جا رہی ہے۔ شہر میں بھی نفرت پھیلانے، فساد پیدا کرنے کی کوشش چل رہی ہے۔ وہاٹس ایپ میں ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتی بائیک ریلی کی ویڈیو چلائی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تک وہ کشیدگی نہیں پیدا کر پائے ہیں۔
تمام اساتذہ کا یہ ماننا ہے کہ طلبا یونین کے ذریعہ چلائی جا رہی تحریک کی سب سے بڑی فتح یہ ہے کہ اس نے اپنے فوکس کو ذرا بھی نہیں بدلا ہے۔ نہ تو وہ جناح کی تصویر پر کچھ بول رہے ہیں اور نہ ہی سر سید پر۔ ان کا مطالبہ وہی ہے، ملک کے سابق نائب صدر حامد انصاری پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اور طلبا پر بربریت کے ساتھ لاٹھی چارج کرنے والے قصوروار پولس عملہ کے خلاف کارروائی ہو اور واقعہ کی ہائی کورٹ کے جج سے جانچ کرائی جائے۔ اس مطالبہ پر ہی تحریک چل رہی ہے اور اس کی حمایت میں ملک و بیرون ملک سے لوگ جمع ہو رہے ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبا یونین کی صدر گیتا کماری اور سابق صدر موہت کمار، سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن سے منسلک وکیل سمیت بڑی تعداد میں سول سوسائٹی کے نمائندے پہنچ رہے ہیں۔ آج بھی بابِ سید پر ہونے والی میٹنگ میں ایمس کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرس ایسو سی ایشن کے سربراہ ہرجیت سنگھ بھاٹی، جے این یو کے فاروق عالم شریک ہوئے۔ تحریک چلا رہے طلبا کے لیے علی گڑھ شہر کے ہندو-مسلمان گھروں سے کھانا بھی آ رہا ہے جو اتحاد کی بہترین مثال پیش کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔