امجدی بانو بیگم: عظیم پردہ نشیں انقلابی خاتون...برسی کے موقع پر

امجدی بانو بیگم نے برطانوی نظام کے خلاف جدوجہد کی، خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا اور تحریک آزادی میں اپنے شوہر مولانا محمد علی جوہر کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خدمات کو مہاتما گاندھی نے بھی سراہا

<div class="paragraphs"><p>امجدی بانو بیگم</p></div>

امجدی بانو بیگم

user

شاہد صدیقی علیگ

امجدی بانو بیگم کا نام ہندوستان کی ان عظیم خاتون مجاہدین کی صف اول کی فہرست میں آتا ہے، جنہوں نے پردے میں رہ کر برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف سخت مزاحمت کی۔ انہوں نے اس عہد میں سیاسی میدان میں زور آزمائش کی جب خواتین اپنے گھروں کی چہار دیواری ی تک محدود رہتی تھیں۔ امجدی بیگم نے سیاسی میدان میں اپنا پہلا قدم اس وقت رکھا جب برطانوی حکام نے ان کے شوہر کو زندان خانہ پہنچا دیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر جب تک قید فرنگ میں رہے، بیگم نے ان کی عدم موجودگی میں تحریک کے جذبے اور عزم کو زندہ رکھنے کو یقینی بنایا۔ امجدی بیگم کا سب سے بڑا کارنامہ اپنی ساس بی اماں کے ساتھ مل کر ہندوستان کی خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کرنا تھا۔

امجدی بانو حوصلہ مند، دلیر، بردبار، سادہ لوح، قناعت، استقامت اور حب الوطنی کی پیکر تھیں، وہ 1885 کو رام پور کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد عظمت علی خان ریاست رام پور کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ مروجہ دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ گھر میں دینی اور مذہبی کتابوں کا ذخیرہ ہونے کے سبب مذہب کا وسیع مطالعہ تھا۔ آپ 5 فروری 1902 کو تحریک آزادی کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں جو ان دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ امجدی بیگم مذہبی روایات میں پروش ہونے کے باوجود سسرال میں قدم رکھتے ہی ساس اور شوہر کے رنگ میں رنگ گئیں اور ان کے ہر سفر، عوامی جلسہ اور دیگر سرگرمیوں میں ساتھ دینے لگیں۔ امجدی بیگم نے بی اماں کے ساتھ ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لیے پورے برصغیر کا سفر کر کے کروڑوں روپے کا چندہ جمع کیا۔


یوپی کے گورنر میلکم ہیلی (Malcolm Healey) نے لیجسلیٹو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ”مولانا محمد علی کے گھر کی عورتیں تک چندہ جمع کرتی اور شورش برپا کرتی پھرتی ہیں۔‘‘

مزید برآں انہوں نے غیر ملکی کپڑوں کا بائیکاٹ، کھادی کا استعمال، شراب کی دوکانوں پر دھرنا، فوجی بھرتی کی مخالفت اور انگریزی نوکریوں سے استعفیٰ کو کامیاب بنانے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ ان کو 1920 میں آل انڈیا خلافت خواتین کمیٹی کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔

مہاتما گاندھی نے 29 نومبر1921 کے پنگ انڈیا شمارے میں امجدی بیگم کے لیے ’ایک بہادر خاتون‘ عنوان سے خصوصی طور پر مضمون رقم کیا تھا ۔جس میں وہ لکھتے ہیں، ’’گزشتہ سال امجدی بیگم نے عوامی کاموں میں اپنے شوہر کا تعاون کرنا شروع کیا۔ انہوں نے سمرنا فنڈ کے لیے چندہ جمع کرنے سے آغاز کیا۔ تب سے وہ ہمارے طویل اور دشوار تر تین ،بہار ،آسام ،مشرقی اور مغربی بنگال کے سفر میں شریک رہیں۔ انہوں نے خواتین کے جلسوں سے بھی خطاب کرنا شروع کر دیا اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں تقریر کی فصاحت اپنے بہادر شوہر سے کسی بھی طرح کم نہیں ۔ا ن کی تقاریر مختصر ہونے کے باوجود انتہائی پر اثر ہوتی ہیں۔“


لارڈ ارون کی دعوت پر امجدی بانو بیگم اپنے شدید علیل شوہر مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ سنہ 1930ءمیں پہلی گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے لندن روانہ ہوئیں ۔اسی سفر کے دوران مولانا لندن میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کے بعد بیگم امجدی بانو نے 9 جنوری 1931ءکو اپنی بیٹی زہرہ کو جو خط لکھا ،اس کے ایک ایک لفظ سے صبر و تحمل، شوہر کی جدائی کا کرب اور ملک و قوم کی فکر آشکار ہوتی ہے، ’’میں زندہ ہوں لیکن مردوں سے بدتر ۔ میری قسمت میں کیا لکھا ہے کہ اب تک زندہ رہی، جس کی دنیا کو ضرورت تھی وہ مجھ کو اور تم کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘

مگر امجدی بیگم نے مولانا محمد علی جوہر کی رحلت کے بعد ان کے مشن کو ادھورا چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور اپنی باقی زندگی دہلی کے قرول باغ کے ایک چھوٹے سے گھر میں دو وفادار نوکروں کے ساتھ گزار دی۔ اس دوران وہ سیاست اور تحریک آزادی میں سرگرم عمل رہیں۔ امجدی بیگم نے 28 مارچ 1947 کو اس دار فانی کو الوداع کہہ دیا۔ جنہیں خلافت ہاؤس، بمبئی کے گراؤنڈ میں سپرد خاک کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔