’کووڈ امریکی لیب سے لیک ہوا، وُہان سے نہیں‘، امریکی پروفیسر کا دعویٰ
امریکی ماہر معیشت جیفری سیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ-19 وائرس چین کی بدنام زمانہ وُہان لیب کی جگہ امریکہ کی ایک تجربہ گاہ سے لیک ہوا ہے۔
امریکی ماہر معیشت جیفری سیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ-19 وائرس چین کی بدنام زمانہ وُہان لیب کی جگہ امریکہ کی ایک تجربہ گاہ سے لیک ہوا ہے۔ ’ڈیلی میل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جیفری سیس نے وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی دو سالہ جانچ کی قیادت کی اور وہ کافی پراعتماد تھے کہ وائرس یو ایس لیب بایوٹیکنالوجی کا نتیجہ تھا۔ سیس نے اسپینش گلوبلائزیشن تھنک ٹینک گیٹ سنٹر کے ذریعہ منعقد ایک عالمی سمیلن میں کہا کہ میں نے کووڈ پر دو سال کے لیے لینسٹ کے لیے ایک کمیشن کی صدارت کی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ یو ایس لیب بایوٹیکنالوجی سے نکلا ہے۔ یہ بس دو سال کی محنت سے سامنےآیا ہے۔ سیس کا کہنا ہے کہ میرے خیال سے یہ ایک غلطی ہے (بایوٹیک کی)، یہ حادثہ یا قدرتی اسپلووَر نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وبا کے دو سال بعد بھی کووڈ-19 کے اسباب واضح نہیں ہیں۔ یہ عالمی سطح پر سائنسدانوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ ایک سیاسی اور سائنسی بحث رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑ سے لوگوں میں پھیلا، یا ایک تجربہ گاہ سے لیک ہو گیا ہے۔
گزشتہ ماہ، عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے چیف ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے کہا تھا کہ کووڈ لیب رِساؤ اصول کو آگے کی جانچ کی ضرورت ہے۔ لیکن پھر انھوں نے ایک سینئر یوروپی سیاسی لیڈر کو نجی طور پر قبول کیا کہ وبا چین کی بدنام زمانہ لیب سے پیدا ہوا ہے۔ سیس کو بار ٹائم رسالہ کے دنیا کے 100 سب سے بااثر لوگوں میں سے ایک نامزد کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کے وافر ثبوت ہیں کہ اس کی جانچ کی جانی چاہیے اور اس کی جانچ امریکہ اور کہیں نہیں کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ بنیادی اسباب سے، وہ (امریکی افسر) بہت زیادہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کووڈ امریکہ میں وجود میں آیا تھا یا وُہان میں امریکی اور چینی سائنسدانوں کے درمیان تعاون سے پیدا ہوا تھا۔ ڈیلی میل نے کہا کہ چینی سرکاری افسران نے کہا کہ سیس کے دعوے کی گہرائی سے جانچ کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہرت یافتہ ماہر معیشت نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وبا چینی اور امریکی سائنسدانوں کے درمیان کیے گئے تجربات کا نتیجہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔